اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ فعل قرار دینے کے باوجود ناگزیر ضرورت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے
حدیثِ مبارکہ ہے کہ اللہ ایسے شخص پر لعنت فرماتا ہے جو زوجین کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکائے
قرآن و سنت کے احکام اور آئمہ اکابرین کے اقوال کے مطابق جبر و اکراہ سے لی گئی زبانی یا تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی
شوہر نے طلاق دے دی تھی تو خبر دینے سے مزید طلاق واقع نہیں ہوگئی
اگر شوہر نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق کو حواس بحال ہونے پر برقرار نہیں رکھتا تو نشہ میں دی ہوئی طلاقیں واقع نہیں ہوتی
بیوی کو فقہ کی تعلیم دیتے ہوئے پڑھائے ’انتِ طالق‘ تو طلاق واقع نہ ہوگی
طلاق کے وقوع کیلئے عورت کا محلِ طلاق ہونا ضروری ہے، یعنی طلاق صرف اپنی منکوحہ کو یا کسی کی طرف سے طلاق کا اختیار ملنے کی صورت میں اُس کی منکوحہ کو دی جاسکتی ہے
صریح الفاظ سے طلاقِ رجعی واقع ہوئی اور بعد میں بولے گئے کنایہ الفاظ سے طلاقِ بائن واقع ہوگئی
غیرمدخولہ عورت ایک طلاق کا محل ہوتی ہے، اس لیے پہلی طلاق سے نکاح ختم ہو گیا، نئے حق مہر کے ساتھ نکاحِ جدید کر کے دوبارہ ازدواجی تعلقات قائم کرسکتے ہیں
جبراً لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، اس لیے تحریر پر جبراً دستخط لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی
دھمکیاں دے کر دستخط کروائے ہیں اور وہ لوگ دھمکی پوری کرنے پر قادر بھی تھے تو ایسی صورت میں طلاق نامہ پر دستخط لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی
جب کسی شخص کو طلاق دینے پر انتہائی مجبور کیا جائے تو اس کی دی ہوئی طلاقیں واقع نہیں ہوتیں