جبر و اکراہ کے ذریعے لی جانے والی طلاق کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:6189
السلام علیکم مفتی صاحب! براہ کرم درج ذیل سوالات کے متعلق راہنمائی فرما دیں: (1) کیا کورٹ میرج سے ہونے والا نکاح منعقد ہو جاتا ہے؟ (2) ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد ہو جاتا ہے؟ (3) جبر و کراہ کے ذریعے لی جانے والی طلاق کا کیا حکم ہے؟ (4) اگر شوہر نے جبر و اکراہ کی وجہ سے تحریری طلاق دی اور زبان سے نہ دی تو کیا حکم ہے؟ (5) کیا جبری طلاق مانگنے سے خلع واقع ہوگا۔ (6) اگر جبری طلاق کے بعد میاں بیوی رجوع کرلیں تو کیا حکم ہوگا؟ (7) ایسی طلاق کے بعد نکاح کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

  • سائل: قمر سلاممقام: پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 01 دسمبر 2023ء

زمرہ: طلاق

جواب:

مُكْرَه ایسے شخص کو کہتے ہیں جس سے زبردستی دھمکی کے ذریعہ سے کوئی ایسا کام کروایا جائے جسے وہ سخت ناپسند کرتا ہو اور وہ شخص اس کام کو کرنا بھی نہ چاہتا ہو لیکن دھمکی، خوف اور ڈر کے مارے اُسے وہ کام کرنا پڑے۔ جیسا کہ ابو منصور محمد بن احمد مکرہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

وَأمْرةٌ كَرِيْهٌ: مَكْرُوْهٌ، وَامْرَأَةٌ مُسْتَكْرَهَةٌ إِذا غُصِبَتْ نَفْسُهَا، وَأَكْرَهْتُ فلَاناً: حَمَلْتُهُ عَلَى أَمْرٍ هُوَلَهُ كَارِهٌ، وَالْكَرِيْهَةُ الشِدَّةِ فِي الْحَرْبِ، وَكَذَلِكَ كَرَايِهُ الدَّهْرِ: نَوَازِلُ الدَّهْرِ.

’’مکروہ و ناپسندیدہ بات، عورت کو مکرہ کیا گیا، جب اس کے نفس کو غصب کیا جائے، میں نے فلاں کو مکرہ کیا، اسے اس کی ناپسندیدہ بات پر مجبور کیا۔ جنگ میں شدّت، یونہی زمانے کے مصائب وآلام۔‘‘

الأزهري، تهذيب اللغة، ج: 6، ص: 11، بيروت: دار إحياء التراث العربي

صاحبِ العین خلیل بن احمد الفراھیدی اور ابن منظور الافریقی بیان کرتے ہیں:

وَأَكْرَهْتُهُ حَمَلْتُهُ عَلَى أَمْرٍ وَّهُوَ كَارِهٌ.

’’میں نے اسے ایسے کام پر مجبور کیا جس کو وہ ناپسند کرتا تھا۔‘‘

فراهيدي، العين، ج: 3، ص: 376، دار ومكتبة الهلال- ابن منظور، لسان العرب، ج: 13، ص: 535، بيروت: دار صادر

عبد العزیز بن احمد بن محمد، علاء الدین بخاری حنفی شرح اصول بزدوی کشف الاسرار میں اکراہ کی تعریف لکھتے ہیں:

حَمْلُ الْغَيْرِ عَلَى أَمْرٍ يَمْتَنِعُ عَنْهُ بِتَخْوِيفٍ يَقْدِرُ الْحَامِلُ عَلَى إيقَاعِهِ وَيَصِيرُ الْغَيْرُ خَائِفًا بِهِ.

’’آدمی جس کام سے باز رہنا چاہتا ہو، اس کو اس کے نہ کرنے پر ایسی دھمکی کے ذریعہ مجبور کرنا جس کے کر گزرنے پر آمادہ کرنے والا قادر ہو اور دوسرا شخص اس کی دھمکی سے خوف ذدہ ہو۔‘‘

علاء الدين، كشف الأسرار، ج: 4، ص: 538، بيروت: دار الكتب العلمية

حضرت ثابت بن الاحنف کی روایت مکرہ کی طلاق واقع نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی سند بھی صحیح ہے۔ اور اس روایت کو امام مالک بن انس نے الموطأ میں نقل کیا ہے:

عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْأَحْنَفِ أَنَّهُ تَزَوَّجَ أُمَّ وَلَدٍ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ فَدَعَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَإِذَا سِيَاطٌ مَوْضُوعَةٌ، وَإِذَا قَيْدَانِ مِنْ حَدِيدٍ، وَعَبْدَانِ لَهُ قَدْ أَجْلَسَهُمَا، فَقَالَ: طَلِّقْهَا وَإِلَّا وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ فَعَلْتُ بِكَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَقُلْتُ: هِيَ الطَّلَاقُ أَلْفًا، قَالَ: فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ، فَأَدْرَكْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي كَانَ مِنْ شَأْنِي، فَتَغَيَّظَ عَبْدُ اللَّهِ وَقَالَ: لَيْسَ ذَلِكَ بِطَلَاقٍ وَإِنَّهَا لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْكَ، فَارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ، قَالَ: فَلَمْ تُقْرِرْنِي نَفْسِي حَتَّى أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ أَمِيرٌ عَلَيْهَا، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي كَانَ مِنْ شَأْنِي، وَبِالَّذِي قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ: لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْكَ فَارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ.

’’حضرت ثابت بن الاحنف سے روایت ہے کہ میں نے عبد الرحمٰن بن زید بن الخطاب کی ام ولد لونڈی سے نکاح کیا۔ میں اس کے پاس آیا اور اس پر داخل ہوا تو کوڑے لٹکے ہوئے تھے۔ لوہے کی دو بیڑیاں تھیں اور دوغلام بٹھائے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے کہا: اپنی بیوی کو طلاق دے دو ورنہ اللہ کی قسم تجھے ایسا ایسا کر دوں گا۔ میں نے کہا: اسے ایک ہزار طلاق۔ میں اس کے پاس سے نکلا تو مکہ کے راستے میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کو اپنا سارا واقعہ سنایا تو وہ غصے ہو گئے اور فرمایا: یہ کوئی طلاق نہیں۔ وہ عورت تجھ پر حرام نہیں ہوئی، تُو اپنی بیوی کی طرف لوٹ جا۔ مجھے اطمینان نہ ہوا یہاں تک کہ میں سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس آ گیا اور ان سے اپنا واقعہ اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بات کا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی کہا کہ تیری بیوی تجھ پر حرام نہیں ہوئی، تُو اپنی بیوی کی طرف لوٹ جا۔‘‘

إمام مالك، الموطأ، كتاب الطلاق، باب جامع الطلاق، ج: 2، ص: 587، الرقم: 1220، مصر: دار إحياء التراث العربي

امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول نقل کرتے ہیں:

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما: طَلَاقُ السَّکْرَانِ وَالْمُسْتَکْرَهِ لَیْسَ بِجَائِزٍ.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: مدہوش اور مجبور کی طلاق جائز نہیں ہے۔

البخاري، الصحیح، ج: 5، ص: 2018، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة

فقہاء کرام فرماتے ہیں:

رَجُلٌ أُكْرِهَ بِالضَّرْبِ وَالْحَبْسِ على أَنْ يَكْتُبَ طَلَاقَ امْرَأَتِهِ فُلَانَةَ بِنْتِ فُلَانٍ بن فُلَانٍ فَكَتَبَ امْرَأَتَهُ فُلَانَةَ بِنْتَ فُلَانٍ بن فُلَانٍ طَالِقٌ لَا تَطْلُقُ امْرَأَتُهُ.

’’کسی شخص کو مارپیٹ اور حبس (قید)کے ذریعہ، اپنی بیوی کو تحریری طلاق پر مجبور کیا گیا کہ فلاں دختر فلاں بن فلاں کو طلاق، اس نے لکھ دیا کہ فلاں عورت فلاں بن فلاں کی بیوی کو طلاق اس کی بیوی کو طلاق نہ ہو گی۔‘‘

الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندیة، ج: 1، ص: 379، بیروت: دار الفکر- ابن نجیم، غمز عیون البصائر، ج: 3، ص: 447، بیروت، لبنان: دار الکتب العلمیة

لَوْ أُكْرِهَ عَلَى أَنْ يَكْتُبَ طَلَاقَ امْرَأَتِهِ فَكَتَبَ لَا تَطْلُقُ.

’’اگر کسی کو مجبور کیا گیا کہ طلاق لکھے اور اس نے لکھ دی تو طلاق نہیں ہو گی۔‘‘

  1. ابن نجیم، البحر الرائق، ج/3، ص/2٦4، بیروت: دارالمعرفة
  2. ابن عابدین شامي، ردالمحتار، ج/3، ص/23٦، بیروت: دار الفکر للطباعة والنشر

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ جب کسی شخص کو طلاق دینے پر انتہائی مجبور کیا جائے تو اس کی دی ہوئی طلاقیں واقع نہیں ہوتیں۔ اس صورتحال کو مدِّ نظر رلکھتے ہوئے اب آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

(1) عاقل وبالغ لڑکا اور لڑکی جب اپنی مرضی سے دو مسلمان گواہوں کی موجودگی میں بعوض حق مہر ایجاب وقبول کر لیں تو ان کا نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ اس لیے سوالنامہ میں دی گئی صورت میں ان دونوں کا نکاح منعقد ہو گیا ہے۔

(2) ولی کی اجازت کے بغیر نکاح قائم ہو گیا کیونکہ احناف کے ہاں نابالغ لڑکی کے نکاح کے لیے ولی بنانا شرط ہے جبکہ عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے نکاح کے معاملہ میں ولی کی نسبت خود مختار ہوتی ہے یعنی وہ اپنے نکاح کا فیصلہ خود کر سکتی ہے۔ فقہاء احناف کا یہی موقف ہے، جیسا کہ امام شمس الدین السرخسی نقل کرتے ہیں:

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ امْرَأَةً زَوَّجَتْ ابْنَتَهَا بِرِضَاهَا فَجَاءَ أَوْلِيَاؤُهَا فَخَاصَمُوهَا إلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَجَازَ النِّكَاحَ، وَفِي هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ إذَا زَوَّجَتْ نَفْسَهَا أَوْ أَمَرَتْ غَيْرَ الْوَلِيِّ أَنْ يُزَوِّجَهَا فَزَوَّجَهَا جَازَ النِّكَاحُ وَبِهِ أَخَذَ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى سَوَاءٌ كَانَتْ بِكْرًا أَوْ ثَيِّبًا إذَا زَوَّجَتْ نَفْسَهَا جَازَ النِّكَاحُ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ سَوَاءٌ كَانَ الزَّوْجُ كُفُؤًا لَهَا أَوْ غَيْرَ كُفْءٍ فَالنِّكَاحُ صَحِيحٌ إلَّا أَنَّهُ إذَا لَمْ يَكُنْ كُفُؤًا لَهَا فَلِلْأَوْلِيَاءِ حَقُّ الِاعْتِرَاضِ.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ منقول ہے کہ ایک عورت نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کی مرضی سے کر دیا تو اُس کے ولیوں کو علم ہوا تو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اعتراض پیش کیا لیکن آپ علیہ السلام نے اس نکاح کو جائز قرار دیا۔ یہ فیصلہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ جب کوئی عورت اپنا نکاح خود کر لے یا ولی کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو یہ حکم دے کہ وہ اس کا نکاح کر دے اور وہ شخص یعنی وکیل اس عورت کا نکاح کر دے تو ایسا نکاح جائز ہو گا۔ اور اسی دلیل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ عورت باکرہ ہو یا ثیبہ جب اپنا نکاح خود کر لے تو ایسا نکاح ظاہری روایات کے باعث جائز ہو گا خواہ شوہر اُس عورت کا کفو ہو یا غیر کفو، نکاح صحیح ہو جائے گا مگر یہ کہ اگر شوہر اس عورت کا کفو نہ ہو تو اولیاء کو اس نکاح پر حقِ اعتراض حاصل ہوگا۔‘‘

السرخسي، المبسوط، كتاب النكاح، باب النكاح بغير ولي، ج: 5، ص: 10، بيروت: دار المعرفة

اور صاحب فتح القدیر فرماتے ہیں:

يَنْعَقِدُ نِكَاحُ الْحُرَّةِ الْعَاقِلَةِ الْبَالِغَةِ بِرِضَاهَا وَإِنْ لَمْ يَعْقِدْ عَلَيْهَا وَلِيٌّ بِكْرًا كَانَتْ أَوْ ثَيِّبًا.

’’آزاد، عقل مند اور بالغ عورت کا نکاح اس کی رضا سے ہو جاتا ہے خواہ اس کا ولی نہ کرے، چاہے کنواری ہو یا بیوہ۔‘‘

ابن الهمام، فتح القدير، باب الأولياء والأكفاء، ج: 3، ص: 157، سكهر، الباكستان: المكتبة النورية الرضوية

امام زین الدین ابن نجیم نے بڑا واضح موقف دیا ہے:

نَفَذَ نِكَاحُ حُرَّةٍ مُكَلَّفَةٍ بِلَا وَلِيٍّ لِأَنَّهَا تَصَرَّفَتْ فِي خَالِصِ حَقِّهَا وَهِيَ مِنْ أَهْلِهِ لِكَوْنِهَا عَاقِلَةً بَالِغَةً وَلِهَذَا كَانَ لَهَا التَّصَرُّفُ فِي الْمَالِ وَلَهَا اخْتِيَارُ الْأَزْوَاجِ.

’’آزاد مکلف لڑکی کا نکاح ولی کے بغیر جائز ہے کیونکہ یہ تصرف اس کا خالص حق ہے اور وہ اس حق کو استعمال کرنے کی اہل ہے کہ عاقلہ وبالغہ ہے، اسی لیے اسے مال میں تصرف کا حق ہے اور اسے شادی کا اختیار ہے۔‘‘

ابن نجيم، البحرالرائق، كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، ج: 3، ص: 117، بيروت: دار المعرفة

علامہ محمد بن علی المعروف علاء الدین حصکفی فرماتے ہیں:

فَنَفَذَ نِكَاحُ حُرَّةٍ مُكَلَّفَةٍ بِلَا رِضَا وَلِيٍّ.

’’آزاد مکّلف عورت کا نکاح ولی کی رضا مندی کے بغیر بھی جائز ہے۔‘‘

حصكفي، الدر المختار، كتاب النكاح، باب الولي، ج: 3، ص؛ 55، بيروت: دار الفكر

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عاقلہ بالغہ لڑکی اپنی مرضی سے دستور کے مطابق ولی کے بغیر نکاح کر سکتی ہے۔

(3) اسلحہ کے زور پر جان سے مارنے کی دھمکی دے کر طلاق لینے سے جبرواکراہ ثابت ہوتا ہے، اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی جیسا کہ فتویٰ کے مقدمہ میں جبرواکراہ اور اس حالت میں طلاق واقع نہ ہونے پر دلائل پیش کر دئیے گئے ہیں۔

(4) طلاق واقع نہیں ہوئی تفصیل گزر چکی ہے۔

(5) جبراً طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ خلع کا اطلاق ہوتا ہے۔

(6) لڑکے لڑکی نے جو رجوع کیا درست ہے۔

(7) ان دونوں کا نکاح قائم ہے، اگر والدین رخصتی کرنا چاہتے ہیں تو شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے وہ رخصتی کر سکتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری