مسجد کی تعمیرِ نو میں اگر بیت الخلاء کی جگہ تبدیل کرنا مقصود ہے تو یہ مصالح مسجد میں سے ہے
محراب اور سمتِ قبلہ کی دیوار پر نقش و نگار بنانا یا کوئی عبارت لکھنا پسندیدہ نہیں ہے
مسجد میں شامل جگہ بوقتِ ضرورت فلاح عامہ کے کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنا جائز ہے
ایسی جگہ کو وقفِ مسجد کے حکم میں شمار نہیں ہوگا، اس جگہ کو بعد میں بیچ سکتے ہیں اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال میں بھی لا سکتے ہیں۔
قبروں پر چھت ڈال کر بالائی حصہ کو مسجد قرار دینا جائز ہے۔ صرف اس بات کا خیال رکھا جائے کہ مردے دفنانے اور زائرین کو آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اکابرین نے پرانے قبرستان کی جگہ مسجد بنانے کو جائز قرار دیا ہے
انگریزی میں بولتے یا لکھتے وقت اس لفظ مسجد کو موسک (Mosque) کہنا جائز ہے۔ محض غیرمسلم بالخصوص مغربی اقوام کی زبان کا لفظ ہونے کی بناء پر اس لفظ کے استعمال کو شکوک شبہات کی نگاہ سے دیکھنا نامناسب اور غیردانشمندانہ رویہ ہے۔
مسجد کا نام ’’جنة الأقصى‘‘ رکھنا جائز ہے۔ یہ نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اہلِ علاقہ اپنے معاشرتی معاملات کے حل اور اپنے عوام کی تعلیم و تربیت کیلئے نمائندے چننے کا حق رکھتے ہیں۔ جس طرح حکومتی نمائندے چنے جاتے ہیں اسی طرح مسجد کیلئے امام و خطیب اور متولی کا چناؤ بھی اہلِ علاقہ کا حق ہے
بعض صورتوں میں پرانی مسجد کی زمین کو بیچ کر اس کی رقم سے دوسری جگہ نئی مسجد بنانا جائز ہے۔