مسجد میں اگر لوگ نماز ادا کر رہے ہوں‌ تو درس کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:5420
محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم! دو مسائل کے بارے میں جاننے کی جسارت کر رہا ہوں۔ پہلا یہ کہ عشاء کی نماز کے بعد جبکہ ابھی کچھ نمازی وتر اور نوافل ادا کر رہے ہوں تو مسجد کے اندر کیا درس قرآن وہ بھی لاوڈ سپیکر پر دیا جا سکتاہے؟ دوسرا یہ کہ اگر لوگ مسجد میں نفلی عبادت کر رہے ہوں تو کیا دوسرے لوگ بلند آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کر سکتے ہیں یا درس دے سکتے ہیں؟

  • سائل: ڈاکٹر مسعود الحسنمقام: اسلام آباد
  • تاریخ اشاعت: 17 مئی 2019ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالتریب درج ذیل ہیں:

1۔ کسی بھی نماز کے بعد لوگوں کو درس و نصیحت، تعلیم و تدریس یا وعظ و تبلیغ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت سمرہ بن جُندب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

كَانَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم إِذَا صَلَّى صَلاَةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز پڑھ لیتے تو رخ انور کو ہماری طرف فرما لیا کرتے تھے۔

بخاري، الصحيح، كتاب صفة الصلاة، باب يستقبل الإمام الناس إذا سلم، 1: 290، رقم: 809، بيروت، لبنان: دار ابن كثير اليمامة

اور حضرت عریاض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز صبح پڑھائی اور اس کے بعد ہماری طرف متوجہ ہو کر ایک موثر و عمدہ نصیحت فرمائی۔

ابن ماجه، السنن، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1: 17، رقم: 44، بيروت: دار الفكر

لیکن اس درس و تدریس کے لیے درج ذیل آداب کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے:

  1. درس کی اطلاع قبل از وقت لوگوں کو دے دی جائے تاکہ جو لوگ درس میں شرکت نہیں کرنا چاہتے وہ اپنی بقیہ نماز ادا کر کے گھروں کو جا سکیں۔
  2. نمازی حضرات کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ درس کے وقت نماز ایک طرف ادا کریں جہاں درس کے سبب ان کو نماز کی ادائیگی میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
  3. مدرس اور مسجد انتظامیہ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ لاؤڈ سپیکر کا استعمال ضرورت کے مطابق کریں تاکہ اہلِ محلہ اور نمازی حضرات کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

بہرحال نماز کے بعد درسِ قرآن یا درسِ حدیث دینے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ کچھ لوگ نفلی عبادات میں مصروف ہوں۔

2۔ جس طرح جواب کے پہلے حصے میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ ہر شخص کو عبادت، ذکر اذکار اور درس و تدریس کے دوران اپنی آواز مناسب حد تک رکھنی چاہیے تاکہ وہ دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث نہ بنے۔ یہی اصول نفلی عبادات کے سلسلے میں بھی ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت یا درس اس قدر بلند آواز سے نہیں کرنا چاہیے کہ دوسروں کی عبادت میں خلل آئے۔ اگر کوئی شخص دھیمی آواز سے بھی پریشانی کا شکار ہوتا ہے تو اسے نفلی عبادت مسجد کی بجائے گھر پر کرنی چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری