جواب:
یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت کی جسمانی کمزوری اور انفعالی کیفیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے، مثلاً ایک بیوی کی موجودگی میں دوسرا نکاح کرلیا جاتا ہے؛ لیکن شریعت میں عدل کے جو احکام دیے گئے ہیں اُن کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ اس لیے بعض خواتین اس شرط پر نکاح کے لیے تیار ہوتی ہیں کہ اُن کی موجودگی میں شوہر دوسری شادی نہیں کرے گا۔ یہ ایسی شرط ہے جس کا نہ شریعت نے حکم دیا ہے اور نہ اس کی ممانعت کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی ایسی شرط جس کا شریعت نے نکاح میں حکم بھی نہیں دیا ہے اور وہ شریعت کے احکام سے متصادم بھی نہیں ہے؛ لیکن وہ کسی فریق کے مفاد میں ہے تو ایسی شرط معتبر ہو گی یا نہیں؟ جیسے عورت شرط لگائے کہ شوہر اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کرے گا یا اس کو میکے میں رکھے گا یا اس کو اس کے شہر سے باہر نہیں لے جائے گا وغیرہ تو اس کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟ حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم، امامِ اعظم ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایسی شرطیں معتبر نہیں ہیں، اور نکاح میں ایسی شرطیں عائد کرنا اور انہیں قبول کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم ان کے نزدیک بھی ایسی شرائط کے ساتھ کیا گیا نکاح منعقد ہو جائے گا، اور شرائط غیرمعتبر ہوں گی۔ یعنی ان شرطوں کو پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔
دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایسی شرطیں معتبر ہیں اور شوہر پر ان کا پورا کرنا واجب ہے۔ حضرت عمرؓ، حضرت عمر و بن العاصؓ، حضرت عبدﷲ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ، امام احمد ابن حنبلؒ، امام بخاریؒ اور امام ابوداؤدؒ کا یہی نقطۂ نظر ہے۔ تاہم اس نقطہ نظر کے حاملین کے نزدیک بھی اگر عورت نے نکاح کرتے ہوئے پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط رکھی ہے تو یہ غیرمعتبر ہوگی اور اس کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس نقطۂ نظر کے علماء کی پہلی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ؕ۬
اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔
الْمَآئِدَة، 5: 1
اور دوسری دلیل رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ:
عَنْ عُقْبَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَحَقُّ مَا أَوْفَيْتُمْ مِنْ الشُّرُوطِ أَنْ تُوفُوا بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ.
حضرت عقبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمام شرطوں میں وہ شرطیں سب سے زیادہ پوری کی جانے کے لائق ہیں جن کے ذریعہ تم نے شرم گاہوں کو حلال کیا ہے (یعنی نکاح کی شرطیں ضرور پوری کی جائیں۔)
بخاری، الصحیح، كِتَابُ النِّكَاحِ، بَابُ الشُّرُوطِ فِي النِّكَاحِ، رقم الحدیث: 5151
دورِ جدید کے علماء نے موجودہ حالات کے پس منظر میں دوسرے نقطۂ نظر ترجیح دی ہے۔ اس لیے نکاح کے وقت اگر ایسی باتوں کی شرط لگائی جائے کہ شریعت نے نہ ان کو لازم قرار دیا ہو اور نہ اُن سے منع کیا ہو تو ایسی شرطوں کو پورا کرنا واجب ہے۔ اس لیے بصوتِ مسئلہ اگر لڑکی نے اس شرط پر شوہر سے نکاح کیا کہ اس کی موجودگی میں شوہر دوسری شادی نہیں کرے گا، اور شوہر نے یہ شرط قبول کر لی تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ شریعت نے وعدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر شوہر اس شرط کو توڑتا ہے تو بیوی کے پاس علیحدگی کا معقول جواز اور بذریعہ عدالت فسخِ نکاح کا حق ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔