کیا لڑکی کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے نکاح کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:1413
کیا لڑکی کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے نکاح کرنا جائز ہے؟ جیسے کہ باپ لڑکی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کسی کے ساتھ نکاح پر آمادہ کرے، جب کہ لڑکی رضا مند نہ ہو اور فقط باپ کی عزت رکھنے کے لیے مجبوراً نکاح پر آمادہ ہو۔ اس صورت میں نکاح کی کیا حیثیت ہو گی؟

  • سائل: سعید اقبالمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 07 فروری 2012ء

زمرہ: نکاح

جواب:

دین میں جبر نہیں ہے، والدین کو الیسا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنی بیٹی کی رضا اور خوشی کو مدنظر رکھنا چاہیے، جہاں لڑکی خوش ہے اور وہ چاہتی ہے اس کی خوشی کے مطابق والدین کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ البتہ والدین اچھی طرح چھان بین کر لیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر لڑکا اچھا ہو، صحیح العقیدہ ہو، اس کا خاندان بھی ٹھیک ہو تو والدین کو اپنی بیٹی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس کی خوشی کو مقدم رکھنا چھاہیے۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہو، اس کا اخلاق اچھا نہ ہو، خاندان اچھا نہ ہو تو لڑکی کو چاہیے کہ اپنے والدین کی بات مانتے ہوئے کوئی اچھا اور معقول رشتہ تلاش کر کے شادی کرے۔ کیونکہ والدین ہمیشہ اپنی اولاد کی بہتری چاہتے ہیں۔

کسی بھی صورت میں اگر لڑکی نکاح کے لیے راضی ہو جاتی ہے اور وہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھ لیتی ہے تو نکاح ہو جاتا ہے۔ ایسے موقع پر لڑکی کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ والدین جو فیصلہ کر رہے ہیں کیا وہ اس کے لیے درست ہے کہ نہیں؟ دل کی کیفیت کو کوئی نہیں جانتا کہ وہ دل سے انکار کر رہی ہے یا قبول۔ اگر ظاہراً سب کے سامنے نکاح قبول کرتی ہے تو نکاح ہو جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری