جواب:
جب کوئی شخص عام حالات میں طلاقِ صریح کا لفظ بولے اور اس کی نسبت اپنی بیوی کی طرف کرے تو اس کی نیت معتبر نہیں ہوگی۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ نیت کا اعتبار طلاقِ کنایہ میں ہوتا ہے، طلاق صریح میں نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:
أَنَّ الصَّرِيحَ لَا يَحْتَاجُ إلَى النِّيَّةِ.
طلاق صریح نیت کی محتاج نہیں ہوتی۔
ابن عابدين، رد المحتار، باب مطلب في قول البحر إن الصريح يحتاج في وقوعه ديانة إلى النية، 3:250، بيروت: دار الفكر
مراد یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ ’تجھے طلاق ہے‘ یا کہے ’تجھے طلاق دی‘ یا بیوی سے جھگڑتے ہوئے طلاق دے یا بیوی طلاق کا مطالبہ کر رہی ہو تو طلاق کا لفظ بولے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
مگر تعلیم کی خاطر بیوی یا دیگر افراد کو طلاق کے بارے میں پڑھاتے ہوئے طلاق کا لفظ بولنا وقوعِ طلاق کا سبب نہیں بنتا۔
امام ابنِ ھمام اور امام ابنِ نجیم رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں:
لَوْ كَرَّرَ مَسَائِلَ الطَّلَاقِ بِحَضْرَةِ زَوْجَتِهِ وَيَقُولُ: أَنْتِ طَالِقٌ وَلَا يَنْوِي طَلَاقًا لَا تَطْلُقُ.
اگر کوئی اپنی بیوی کی موجودگی میں طلاق کے مسائل دہراتا ہے اور کہتا ہے: تم طلاق یافتہ ہو اور وہ طلاق کی نیت نہیں رکھتا تو طلاق نہ ہو گی۔
اس لیے بیوی کو فقہ کی تعلیم دیتے ہوئے اگر شوہر پڑھائے کہ ’انتِ طالق‘ تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔