جواب:
اگر ڈاکٹرز یا طبی عملہ کے افراد اس ’شرط‘ پر کسی کمپنی کی ادویات ترجیحاً تجویز کرتے ہیں یا طبی معائنہ کے لیے کسی مخصوص تجزیہ گاہ (Laboratory) کو لازم کر دیتے ہیں کہ اس کے بدلے کسی خاص تناسب سے کمیشن وصول کریں گے تو ایسا کرنا ممنوع ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
أَنْ يَشْتَرِطَ أَنَّهُ إنَّمَا يُهْدِي إلَيْهِ لِيُعِينَهُ عِنْدَ السُّلْطَانِ، وَفِي هَذَا الْوَجْهِ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ الْأَخْذُ.
اگر کسی صاحبِ اختیار کو کسی کام میں مدد کرنے کی شرط کے ساتھ تحفہ (یا کمیشن) دیا گیا تو اس کا لینا جائز نہیں۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 3: 331، بيروت: دار الفكر
مشروط ہونے کے بعد یہ کمیشن محض ہدیہ نہیں رہتا بلکہ ایک طرح سے کاروباری معاہدہ بن جاتا ہے جس میں ایک فریق محض اپنے اختیار کی وجہ سے کمیشن لیتا ہے جبکہ اس کا تمام تر مالی بوجھ تیسرا فریق (مریض) اٹھاتا ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ ’مریض کو دوائی تو اسی قیمت پر ملنی تھی، ڈاکٹر کے کمیشن لینے سے مریض کو اضافی لاگت نہیں آ رہی‘ کیونکہ دواساز کمپنیاں اپنی مصنوعات کے تمام اخراجات خریدار پر ہی ڈالتی ہیں۔ خریدار دوائی کی جو قیمت ادا کرتا ہے اس میں ڈاکٹرز کو دیے جانے والے کمیشنز اور تَشہير کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ دواساز کمپنی و طبی تجزیہ گاہ اور ڈاکٹر کے درمیان ہونے والے کمیشن کے لین دین کا اصل بوجھ مریض کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
اگر ڈاکٹرز محض کمیشن کے لالچ میں غیر معیاری ادویات تجویز کرتا ہے یا غیرضروری طبی معائنہ کرواتا ہے تو اس صورت میں کمیشن لینا اور دینا حرام ہے۔ کیونکہ یہ دوسروں کے مال و جان سے کھلواڑ ہے جو شرعاً و اخلاقاً سخت ممنوع ہے۔
اس کمیشن کے جواز کی صرف ایک ہی صورت ہوسکتی ہے اور وہ ہے کہ دواساز کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے‘ محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح مصنوعات (Products) متعارف کروانے کے لیے دیا گیا تحفہ بھی وصول کرنے کی بھی کوئی ممانعت نہیں۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
دواساز کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹرز کو ملنے والے تحائف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔