کمیشن کے پیسوں کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3271

السلام علیکم! میرا سوال کمیشن کے پیسے سے متعلق ہے۔

آجکل تقریبا ہر تجارت یا ملازمت میں ایک چلن ہے کہ لوگ اپنی تنخواہوں کے علاوہ کمیشن کے پیسے بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر زید کے پاس بیرون ملک سے مریض آتے ہیں۔ زید ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کرتا ہے، ہوٹل لے جاتا ہے، پھر ہاسپیٹل تک انکے ساتھ ہوتاہے، مترجم کا فریضہ بھی انجام دیتاہے۔ مختصر یہ کہ وہ انکو تمام سہولیات فراہم کرتاہے۔ علاج کے خاتمے پر وہ ہاسپٹل سے متعین کمیشن لیتا ہے جو کہ 25 فیصد سے لےکر 35فیصد تک ہے۔ بسا اوقات مریض کو یہ بات معلوم ہوتی ہے، لیکن اکثر نامعلوم ہوتی ہے۔ جبکہ کبھی مریض یہ سمجھتاہے کہ زید ہاسپٹل کا ملازم ہے اور زید بھی مریض کو یہی بتاتا ہے۔

قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ کمیشن کے پیسوں کا کیا حکم ہے؟

اللہ آپکے درجات بلند فرمائے! ہمیں حلال رزق عطا فرمائے!

  • سائل: احسن جاویدمقام: متحدہ عرب امارات
  • تاریخ اشاعت: 27 جون 2014ء

زمرہ: مالیات

جواب:

ائیر پورٹ پر جاکر استقبال کرنا، ہسپتال لے جانا، مترجم کے فرائض انجام دینا اور دیگر معاملات میں مریض کی مدد کرنے میں خاصا وقت اور محنت درکار ہے۔ اس لیے معاوضہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا نام کمیشن رکھا جائے یا کچھ اور، یہ درست ہوگا۔ لیکن اگر جھوٹ بول کر غلط بیانی کے ذریعے پیسے لے گا تو جائز نہیں ہوں گے۔

اگر کسی ادارے نے ایک شخص درج بالا امور کی انجام دہی کے لیے تعینات کیا ہو اور اسے تنخواہ بھی مل رہی ہو، اس کے باوجود وہ مریضوں سے لے، تو یہ جائز نہیں ہوگا۔ کیونکہ ادارے نے اسے رکھا ہی مریضوں کی سہولت کے لیے ہے۔ لیکن اگر ادارے نے اسے اجازت دی ہے کہ وہ اضافی خدمات کی صورت میں اضافی پیسے لے سکتا ہے تو پھر جائز ہو گا۔

گویا جو رقم سچ بول کر کمائی جائے گی وہ حلال اور جائز ہوگی، جبکہ جھوٹ بول کر کمائی گئی رقم ناجائز اور حرام ہوگی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی