جواب:
آب حیات کی حقیقت کے بارے میں اہلِ علم میں اختلاف ہے۔ اکثر علماء اس کو افسانہ قرار دیتے ہیں کیونکہ آبِ حیات کا تذکرہ نہ تو کلام اللہ کی کسی آیت میں ہے اور نہ ہی کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی روایت میں ہے۔ کچھ مفسرین نے سورہ کہف کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے آبِ حیات کے بارے میں بات کی ہے، جن میں حضرت ذوالقرنین کے سفر کا تذکرہ ہے۔
تاہم آبِ زمزم کے فضائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ امام طبرانی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:
قَالَ رَسُولُ اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم خَیْرُ مَاءٍ عَلَی وَجْهِ الْأَرْضِ مَاءُ زَمْزَمَ، فِیهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ وَشِفَاءٌ مِنَ السُّقْمِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روئے زمین پر سب سے عمدہ پانی زمزم ہے، اس میں لذیذ کھانے کے خواص ہیں اور بیماری کی دوا ہے۔
طبراني، المعجم الکبیر، 11: 98، رقم: 11167، الموصل: مکتبة الزهراء
ایک روایت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّهَا مُبَارَکَةٌ إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ.
زمزم کا پانی برکت والا ہے، یہ پیٹ بھرنے والا کھانا ہے۔
مسلم، الصحیح، 4: 1922، رقم: 2473، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
زمزم کے فضائل پر دیگر احادیث بھی موجود ہیں، مگر آبِ حیات کے بارے میں ایسی کوئی آیت یا روایت ہمارے علم میں نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔