جواب:
حیض کو روکنا ایک غیر فطری عمل ہے اس لیے اس میں نقصان کا خطرہ لازم ہے۔ حیض میں اللہ تعالیٰ نے بنات آدم کے لیے کچھ حکمتیں رکھی ہیں‘ اس کو روکنے کی صورت میں ان حکمتوں کے ختم ہونے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔ حیض کو روکنے یا مؤخر کرنے کی ادویات اور علاج زمانہ نبوی میں بھی موجود تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایسا کرنے کی ترغیب نہیں دی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایسا کرنے سے روکا بھی نہیں ہے۔ اس لیے ایسی ادویات جن سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو‘ ڈاکٹر کے مشورے سے حج و عمرہ کے مبارک سفر میں استعمال کی جاسکتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے جب پوچھا گیا: ’’کیا عورت ایسی دوا استعمال کر سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ واپسی تک حیض سے محفوظ رہے؟‘‘
انہوں نے فرمایا:
’میں اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔‘ پھر فرمایا: ’اس سلسلہ میں پیلو کا پانی مفید ہوتا ہے۔‘
اگر کسی عورت نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے حیض روکنے کی ادویات کھائیں اور حیض نہیں آیا تو اس پر پاکی کے احکام لاگو ہوں گے، اس کے روزے صحیح ہیں‘ ان کی قضاء نہیں کی جائے گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔