جواب:
اگر آپ کو معلوم ہے کہ جو شخص آپ سے مکان کرائے پر لے رہا ہے وہ وہاں صنم کدہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے اور مکان میں شرکیہ امور سرانجام دیے جائیں گے تو بہتر ہے اسے مکان نہ دیا جائے۔ کیونکہ یہ برائی کے کام میں تعاون کے مترادف ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
تَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.
نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
الْمَآئِدَة، 5: 2
اس کے برعکس اگر ایسا غیرمسلم جو اہلِ اسلام سے حالتِ جنگ میں نہ ہو اسے رہائش کے لیے مکان کرائے پر دیا جاسکتا ہے۔ رہائش اختیار کرنے کے بعد اگر غیرمسلم وہاں کوئی غیرشرعی کام کرتا ہے تو مالکِ مکان کو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ فقہ حنفی کے عالی مرتبت امام شمس الدین سرخسی فرماتے ہیں:
وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤَاجِرَ الْمُسْلِمُ دَارًا مِنْ الذِّمِّيِّ لِيَسْكُنَهَا فَإِنْ شَرِبَ فِيهَا الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدَ فِيهَا الصَّلِيبَ، أَوْ أَدْخَلَ فِيهَا الْخَنَازِيرَ لَمْ يَلْحَقْ الْمُسْلِمَ إثْمٌ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُؤَاجِرْهَا لِذَلِكَ وَالْمَعْصِيَةُ فِي فِعْلِ الْمُسْتَأْجِرِ وَفِعْلُهُ دُونَ قَصْدِ رَبِّ الدَّارِ فَلَا إثْمَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فِي ذَلِكَ.
مسلمان کے ذمی کو مکان رہائش کے لیے دینے میں کوئی مضائقہ نہیں، پھر اگر وہ اس میں شراب پیئے، صلیب کی پرستش کرے یا سور داخل کرے تو مسلمان کو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ مسلمان نے اس مکان اس مقصد کے لیے نہیں دیا۔ یہ عمل کرایہ دار کا ہے جس میں مالکِ مکان کا ارادہ شامل نہیں اس لیے وہ گناہگار نہیں ہے۔
اس مسئلے پر امام مرغینانی نے اپنی رائے دیتے ہوئے فرمایا ہے:
وَمَنْ أَجَّرَ بَيْتًا لِيُتَّخَذَ فِيهِ بَيْتُ نَارٍ أَوْ كَنِيسَةٌ أَوْ بِيعَةٌ أَوْ يُبَاعُ فِيهِ الْخَمْرُ بِالسَّوَادِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.
اگر کوئی مکان کرایہ پر دے اور کرایہ دار اس میں بت خانہ، کلیسا یا شراب خانہ بنا لے تو اس مکان دینے والے پر گناہ نہیں ہے۔
مرغيناني، الهداية، 4: 94، المکتبة الاسلاميه
لہٰذا غیرمسلم کو رہائش کے لیے مکان کرایہ پر دینا جائز ہے، لیکن کسی غیرشرعی، کفریہ اور شرکیہ مقصد کے لیے مکان، دکان اور پلاٹ وغیرہ دینا جائز نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔