السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
میرے تین سوالات ہیں:
براہِ مہربانی تفصیلی جواب عنائت فرمائیں۔
جواب:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلاَ تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَo
’’اور آپ سے حیض (ایامِ ماہواری) کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں وہ نجاست ہے، سو تم حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کش رہا کرو، اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جایا کرو، اور جب وہ خوب پاک ہو جائیں تو جس راستے سے اﷲ نے تمہیں اجازت دی ہے ان کے پاس جایا کرو، بے شک اﷲ بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
البقرة، 2: 222
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حائضہ عورت سے کنارہ کشی سے مراد جماع کرنے کی ممانعت ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
حضرت انسg بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت حائضہ ہوتی تو وہ اس کو اپنے ساتھ کھانا کھلاتے اور نہ اپنے ساتھ گھروں میں رکھتے۔ صحابہ کرامl نے رسول اللہa سے اس مسئلہ کے متعلق پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَيَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِيْضِ.... الخ} یہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرمائیے کہ حیض نجاست ہے، اس لیے ایام حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو۔ رسول اللہa نے اس کی تفسیر میں فرمایا:
اصْنَعُوا کُلَّ شَيْئٍ إِلَّا النِّکَاحَ.
’’جماع نہ کرو، باقی تمام معاملات میں عورتوں کے ساتھ مشغول رہو۔‘‘
یہودیوں کو جب یہ خبر پہنچی تو کہنے لگے یہ شخص ہر بات میں ہماری مخالفت کرنا چاہتا ہے یہ سن کر اسید بن حضیر اور عباد بن بشر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! جب یہودی ہم کو اس طرح کے طعنے دیتے ہی ہیں تو پھر ہم ایام حیض میں اپنی عورتوں سے جماع ہی کیوں نہ کر لیا کریں۔ یہ سنتے ہی رسول اللہa کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور ہم لوگوں نے سوچا کہ حضورa ان دونوں سے ناراض ہو گئے ہیں، وہ دونوں (ڈر کر) مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔ اسی اثناء میں رسول اللہa کی خدمت میں دودھ کا ہدیہ آیا، رسول اللہa نے ان کو بلا کر دودھ پلایا تب ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہa ان سے ناراض نہیں ہوئے تھے۔
حیض کے دنوں میں اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے۔
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ مَنْ اَتَی حَائِضًا اَوْ امْرَاَةً فِي دُبُرِهَا اَوْ کَاهِنًا فَصَدَّقَهُ فَقَدْ بَرِیَ مِمَّا اَنْزَلَ اﷲُ عَلَی مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حیض والی عورت سے قربت کی یا عورت کی دُبرمیں دخول کیا یا کاہن (غیب دانی کے دعویدار) کے پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کی (یعنی سچا یقین کیا) تو وہ اس تعلیم سے بری (لاتعلق) ہوگیا جو اﷲ تعالیٰ نے محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہے۔‘‘
بعض روایات میں درج ذیل الفاظ آئے ہیں:
فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ
اس نے شریعت محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کیا۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ امام دارمی، امام نسائی، ابن ابی شیبہ اور دیگر محدثین نے بھی نقل کی ہے۔
اکثر علماء کا ارشاد ہے کہ اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے یہ آدمی صرف اﷲ سے استغفار کرے گا اور علماء نے اس حدیث کو مرسل یا ابن عباس پر موقوف گمان کیا ہے اور ان کے نزدیک یہ روایت مرفوع متصل صحیح نہیں ہے۔
لہٰذا دورانِ حیض بیوی سے عمل زوجیت کرنا اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کی سخت خلاف ورزی اور گناہ کبیرہ ہے یعنی حرام ہے۔ اس کا مرتکب ہونے والا اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگے لیکن دینار وغیرہ کی صورت میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔