جواب:
نماز پڑھنے اور قائم کرنے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن حکیم میں صرف نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ بالتاکید نماز قائم کرنے پر اصرار ہے کیونکہ اگر صرف نماز پڑھنے کا حکم ہوتا تو زندگی میں ایک آدھ بار نماز کا ادا کر لینا ہی کافی ہوتا جبکہ قرآن حکیم میں متعدد حکمتوں کی بناء پر نماز قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے مثلاً
اولاً : اقامت صلوٰۃ کے حکم میں مداومت کا پہلو مضمر ہے جس کا معنی یہ ہے کہ نماز اس طرح ادا کی جائے کہ اسے ترک کرنے کا تصور بھی باقی نہ رہے۔ قرآن حکیم اسے محافظت علی الصلوٰۃ سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَo
’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کروo‘‘
البقرة، 2 : 238
نماز کی مداومت اور محافظت سے مراد یہ ہے کہ نماز اس طرح پوری زندگی کا مستقل وظیفہ اور شعار بن جائے جس طرح شبانہ روز مصروفیات میں آرام نہ کرنے اور کھانا نہ کھانے کا تصور محال ہے اس طرح ترکِ نماز کا تصور بھی خارج از امکان ہو جائے۔
ثانیاً : اقامت صلوٰۃ کے حکم کا معنی یہ ہے کہ نماز کو تمام تر ظاہری اور باطنی آداب ملحوظ رکھتے ہوئے ادا کیا جائے کیونکہ صرف ظاہری آداب سے نماز ادا تو ہو جائے گی لیکن باطنی آداب کی عدم موجودگی سے نماز کے مطلوبہ اثرات انسانی زندگی پر مرتب نہیں ہو پائیں گے۔
ثالثاً : نماز قائم کرنے کا مفہوم یہ بھی ہے کہ پورے معاشرے میں نظام صلوٰۃ برپا ہو جائے اور اس کے ذریعے ہر شعبہ زندگی کو ایسے ہمہ گیر انقلاب سے آشنا کیا جائے کہ معاشرے کی ہمہ جہت ترقی، اصلاح احوال اور فلاح دارین کے مقاصد پورے ہوتے رہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔