سوال نمبر:2497
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
قبلہ ایک مسئلہ میں آپ کی راہنمائی اور تحریر ی فتوی درکار ہے۔
میاں بیوی سے کچھ عرصہ سے باہم اختلافات چل رہے تھے۔ بیوی پاکستان تھی تو میاں نے ڈنمارک سے موبائل پیغام کے ذریعے کہا کہ میں تمہاری کمی محسوس نہیں کر رہا ہوں، لگتا ہے کہ اگلی طلاق ہماری ہو گی۔ اس کے بعد سے خاوند کے مزاج میں قدرے ترشی رہی۔ ایک شام بیوی کی طبیعت خراب ہوئی تو اس نے خاوند سے کہا ڈاکٹر کو فون کریں۔ خاوند کے انکار پر اس نے خود فون کیا اور ہسپتال چلی گئی۔ کچھ دیر بعد خاوند بھی وہاں پہنچا۔ نند کے پوچھنے پر بیوی نے شکایت بھرے لہجے میں کہا کہ یہ اب یہاں کیوں آیا ہے۔ اس پر خاوند نے کہا "میں تمہیں پہلی طلاق دیتا ہوں"۔ اس کے بعد وہ سخت غصہ میں آیا حتی کہ ہسپتال کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی اور کہا "میں تمہیں دوسری طلاق دیتا ہوں۔" خاوند کی بہن نے دھکا دے کے اسے کمرے سے باہر نکال دیا اور وہ چلا گیا۔
ایک آدھ دن بعد بیوی ہسپتال سے ہو کر گھر واپس آئی، ماں کی موجودگی میں پھر تلخ کلامی ہوئی۔ ماں نے کہا کہ بیٹا اس لڑکی کا ذہنی توازن درست نہیں اس کو فارغ کرو۔ تو اس نے کہا "میں اس کو تیسری طلاق دیتا ہوں"۔ کافی دیر بعد لڑکی نے فون کر کے اپنی سہیلی کو بلایا۔ لڑکا لیٹا رہا اور کافی دیر بعد کمرے میں آیا اور میر ی سہیلی سے کہا "میں اس کو تین طلا ق دے کر مکمل فارغ کر چکا ہوں"۔
لڑکی ابھی عدت طلاق میں ہے۔ دونوں شرمندہ ہیں اور واپسی چاہتے ہیں۔ اس کا شرعی حل کیا ہے؟
- سائل: محمد ندیم یونسمقام: اوڈنسے، ڈنمارک
- تاریخ اشاعت: 03 اپریل 2013ء
جواب:
بصورت مسئولہ دوسری طلاق جو اس نے سخت غصہ کی حالت میں دی تھی، اس کی وجہ سے وہ
شخص بچ سکتا تھا لیکن بعد میں جب اس نے نارمل حالت میں بھی اس کی تصدیق کر دی اور
تین طلاقیں ہی شمار کیں تو اس صورت میں اب ان کی طلاق مغلظہ ہو چکی ہے، اب ان کا
رجوع نہیں ہو سکتا، جب تک کہ عورت کسی اور سے نکاح و ہمبستری کے بعد طلاق یافتہ نہ
ہو جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔