کیا سیدنا امام حسین (رض) کی جدوجہد ریاست کے خلاف بغاوت تھی؟


سوال نمبر:2485
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی جدوجہد ریاست کے خلاف بغاوت تھی؟

  • سائل: عمران سعیدمقام: لاہور، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 26 مارچ 2013ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایک شرابی، زانی، ظالم، جابر، سفاک اور درندہ صفت حکمران یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھا، یعنی اس کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے برائی کے کاموں میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا، لیکن یزید چاہتا تھا کہ اگر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری بیعت کر لیں تو باقی بہت سے لوگ بھی مجھے حکمران مان لیں گے، یعنی ووٹ دے دیں گے۔ لیکن سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے غلط طرز زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے صاف انکار کر دیا لیکن یزید کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کو کہا، میں دلیل سے بات کروں گا، یزید جھوٹا اور مکار ہونے کی وجہ سے خود تو سامنے نہ آیا لیکن زبردستی بیعت کروانے کا منصوبہ بنا لیا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی فیملی سمیت مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے، انہیں ڈر تھا کہ مدینہ پاک میں کہیں خون نہ بہے۔ دوسری طرف اس دوران کوفہ والوں نے بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو دعوت دی کہ ہمارے پاس آ جائیں ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ لیکن آپ علیہ السلام ابھی مکہ میں تھے کہ حج کا مہینہ شروع ہو گیا۔ آٹھ ذوالحجہ کو پھر امام عالی مقام نے سوچا کہ یہاں بھی مسلمان کا اجتماع ہو گا کہیں ایسا نہ ہو کہ ظالم، سفاک یزید کی افواج سے ٹکر ہو جائے اور حرم پاک میں خون کی ندیاں بہہ جائیں اسی لی امن کے دامن کو تھامتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کی غرض سے سفر شروع کر دیا لیکن یزیدی لشکر نے آپ رضی اللہ عنہ کو کربلا کے مقام پر روک لیا اور سات محرم الحرام کو آپ رضی اللہ عنہ پر پانی بند کر دیا اور یزید کی بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا حتی کہ دس محرم الحرام کو یزیدی لشکر نے ظلم کے پہاڑ ڈھا دیئے اور آپ رضی اللہ عنہ کو فیملی اور ساتھیوں سمیت شہید کر دیا۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے شروع سے آخر تک صبر اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ آپ امن کے داعی تھے، آپ نے کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ گلیوں، بازاروں، اداروں یا محافل میں جا کر بے گناہ معصوم بچوں کو قتل کر دو، بوڑھے اور عورتوں کو قتل کر دو، لوگوں کے گھروں کو اڑا دو، دکانیں جلا دو، تعلیمی مراکز تباہ کر دو، فوجی ادارے برباد کر دو، مسجدوں میں نمازیوں کو قتل کر دو یا غیر مسلم اقلیتوں کے گھروں اور عبادت گاہوں کو نیست وبابود کر دو۔ اگر ایسا کوئی بھی بیان جاری کیا ہو تو بحوالہ پیش کر دیں۔ اس پر ساری امت مسلمہ بلکہ غیر مسلم بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے صبر کی مثال قائم کر دی اور امن کا سبق دیا۔ خون خرابے سے بچنے کی غرض سے شہر مدینہ بھی چھوڑ دیا اور مکۃ المکرمہ بھی۔

لہذا معلوم ہوا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایک قدم بھی ایسا نہیں اٹھایا کہ جس میں ریاست سے بغاوت کا عنصر پایا جاتا ہو۔ بیعت کرنے یعنی ووٹ دینے میں ہر کوئی آزاد ہوتا ہے جس کو مرضی دے۔ ایسا تو خالق کائنات نے نہیں کیا کہ زبردستی کسی سے کوئی کام کروائے اچھائی اور برائی دونوں راستے انسان کے سامنے رکھ دیئے ہیں، جو چاہے اختیار کر سکتا ہے، یزید کون ہوتا ہے جو زبردستی نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیعت کرنے پر مجبور کرے؟

مزید مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب
'دہشت گردی اور فتنہ خوارج'
 کا مطالعہ کریں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری