یہ عمل مستحب ہے، کوئی کرے تو ثواب کا مستحق ہے، نہ کرنے والا گناہگار نہیں ہے
صدقاتِ نافلہ اور قربانی دونوں مستقل عبادات ہیں، ان میں سے کوئی دوسرے کا متبادل نہیں ہوسکتا
حقدار صدقہ وصول کرنے کے بعد اسکا مالک بن جاتا ہے، اور اسے حقِ تصرف حاصل ہوتا ہے
اگر شرعِ متین میں بیان کردہ قربانی کی تمام شرائط کسی شخص کے ہاں موجود ہوں تو اس پر قربانی واجب ہے
قربانی کا مقصود محض گوشت کا حصول نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لئے اُس کے نام پر خون بہانا ہے
جانور کا خصی ہونا قربانی کے لیے عیب شمار نہیں ہوتا اور خصی جانور قربان کرنا سنت رسول ﷺبھی ہے
اونٹ پانچ سال کا، گائے، بھینس دو سال کی، بکری، بھیڑ ایک سال کی۔ یہ عمر کم از کم حد ہے
جانور کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ادا نہیں ہوتا، جانور ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کرنا ہی یوم النحر کا صدقہ ہے
پانی کے ذخائر کی تعمیر میں اعانت بہترین صدقہ ہے جس سے حیوان، کھلیان اور انسان مستفید ہوں گے
فقہاء کرام کی رائے کے مطابق وسعت و آسانی رکھنے والے شخص پر قربانی واجب ہوتی ہے
جو شخص دس، گیارہ یا بارہ ذوالحجہ کے ایام میں صاحب مال ہو جائے اس پر قربانی واجب ہے
ارشادِ نبوی ﷺہے کہ قربانی کرنے والا ذی الحج کا چاند نظر آنے سے قربانی دینے تک نہ بال کاٹے اور نہ ناخن تراشے
ایامِ نہر میں اگر کسی شخص کے پاس ضروریاتِ اصلیہ سے زائد اتنا سامان ہو جس کی مالیت نصابِ زکوٰۃ کے برابر ہو تو قربانی واجب ہے
قربانی کا گوشت تین (3) حصوں میں منقسم کر کے دو حصے صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب ہے۔
قربانی کا ارادہ کرنے والا اگر صاحبِ استطاعت ہے تو دوسرا جانور خریدلے، استطاعت نہیں تو حرج نہیں ہے