قبرستان پر چھت ڈال کر اُس پر مسجد بنانا کیسا ہے؟


سوال نمبر:6037
ہم سید ہیں ہمارے آباؤاجداد کا چھوٹا سا قبرستان اور ساتھ جامع مسجد سادات ہے۔ اب ہم مسجد کو توسیع دینا چاہتے ہیں۔ ساتھ کوئی خالی جگہ نہیں ہے اس لیے ہمارا ارادہ ہے کہ قبرستان پر چھت ڈال کر اوپر والا حصہ مسجد میں شامل کر دیا جائے۔ اس بابت شرعی حکم واضح کریں کہ ہمارا یہ عمل جائز ہے؟

  • سائل: سید محمد محسنمقام: کنجاہ، ضلع گجرات
  • تاریخ اشاعت: 20 اکتوبر 2022ء

زمرہ: مسجد کے احکام و آداب

جواب:

قبروں پر چھت ڈال کر بالائی حصہ کو مسجد قرار دینا جائز ہے۔ صرف اس بات کا خیال رکھا جائے کہ مردے دفنانے اور زائرین کو آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اکابرین نے پرانے قبرستان کی جگہ مسجد بنانے کو جائز قرار دیا ہے۔ بہت سی تاریخی مساجد ایسی ہیں جن کے نیچے پرانی قبریں تھیں جیسا کہ مسجد نبوی کی جگہ یہودیوں کا قبرستان تھا، صحن کعبہ میں بہت انبیاء کرام کی قبریں ہیں جن کے اب نشانات بھی موجود نہیں ہیں اور ان کے علاوہ کئی مساجد میں توسیع کے دوران اوپر چھت ڈال کر بالائی صحن کو مسجد میں شامل کر دیا گیا ہے اور قبریں تہہ خانہ میں موجود ہیں جس کی مثال لاہور میں داتا دربار مسجد بھی ہے اور دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ جب بوسیدہ قبرستان کی جگہ مسجد بنانا جائز ہے تو قبروں پر چھت ڈال کر مسجد کے صحن میں شامل کرنے میں بھی حرج نہیں ہے۔ علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَأَمَّا الْمَقْبَرَةُ الدَّاثِرَةِ إِذَا بُنِيَ فِيْهَا مَسْجِدٌ لِيُصَلَّى فِيهِ فَلَمْ أَرَ فِيْهِ بَأْساً، لِأَنّ الْمَقَابِرَ وَقَفٌ، وَكَذَا الْمَسْجِدُ، فَمَعْنَاهَا وَاحِدٌ.

’’اور پرانے قبرستان میں نماز پڑھنے کی غرض سے مسجد تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ مسجد بھی وقف ہے اور قبرستان بھی وقف، دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔‘‘

العینی، عمدة القاری، 4: 174، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی

علامہ عینی رحمہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ مسجد اور قبرستان دونوں ہی وقف ہیں اس لئے پرانے قبرستان کی جگہ مسجد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جس زمانہ میں انہوں نے بوسیدہ قبرستان کی جگہ مسجد بنانے کی اجازت دی ہے، یہ عمل اس سے بھی پہلے سے جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑا واضح موقف اختیار کیا ہے۔ آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ: لَوْ أَنَّ مَقْبرَةً مِنْ مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ عَفَتْ فَبَنَى قَوْمٌ عَلَيْهَا مَسْجِدًا لَمْ أَرَ بِذَلِكَ بَأْسًا.

’’ابن القاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کا کوئی مقبرہ پرانا اور بوسیدہ ہو گیا اور لوگوں نے اس پر مسجد تعمیر کی تو مجھے اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔‘‘

العینی، عمدة القاری، 4: 179

کیونکہ ایک جگہ قبر بننے کے بعد ہمیشہ کے لئے وہاں دوسری قبر بنانے یا کسی دوسرے استعمال میں لانے کو ناجائز قرار دے دیا جائے تو بہت سی جگہیں قبرستانوں ہی میں صرف ہوجائیں گی جس سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر قبر بوسیدہ نہ ہو اور اس کے ورثاء بھی موجود ہوں تو قبر کو مسمار کرنا یا اس میں کسی اور کی تدفین کرنا جائز نہیں ہے جب تک کہ وہاں دفن میت کے ورثاء اس کی اجازت نہ دیں۔ بوسیدہ قبر میں میت کے مٹی ہو جانے کی صورت میں وہاں نئی قبر بنانے اور اس جگہ کو دیگر امور میں صرف کرنے کے حوالے سے فقہاء کرام نے بڑا واضح موقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے بوسیدہ قبرستان کی جگہ کھیتی باڑی کرنے اور تعمیرات کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ جیسا کہ علامہ فخر الدین عثمان بن علی زیلعی حنفی نے تبیین الحقائق میں بیان کیا ہے، اسی کو ابن نجیم، علامہ شامی اور صاحبان فتاویٰ ہندیہ نے بھی نقل کیا ہے:

وَلَوْ بَلِيَ الْمَيِّتُ وَصَارَ تُرَابًا جَازَ دَفْنُ غَيْرِهِ في قَبْرِهِ وَزَرْعُهُ وَالْبِنَاءُ عَلَيْهِ.

’’اگر میت بوسیدہ ہوکر مٹی میں مل جائے تو اس جگہ دوسری میت دفن کرنا، وہاں کھیتی کاشت کرنا اور اس پر تعمیرات کرنا جائز ہے۔‘‘

الزيلعي، تبين الحقائق شرح كنز الدقائق، 1: 246، القاهرة: دار الكتب الإسلامي- الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 1: 167، بيروت دار الفكر

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری حنفی رحمہ اللہ نے بھی اس امر کو جائز قرار دیا ہے کہ قبروں کے باہر ستون بنا کر اوپر چھت ڈال کر، اس چھت کو صحن مسجد میں شامل کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے فرمایا کہ وہاں پر میتیں دفن کرنے اور لوگوں کو آنے جانے میں رکاوٹ نہ ہو۔ دوسرا انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ یہ وقف کرنے والے یا ذمہ داروں کی اجازت سے ہو اور لوگوں کے لیے فائدہ مند بھی ہو جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:

’’اور اگر وہ قابل کار نہ رہا یا اس سے استغنا ہو گیا یا وہاں دفن کی ممانعت ہو گئی جس کے سبب اب وہ اس کام میں صرف نہیں ہوسکتا یا مسجد قدیم لبِ مقبرہ واقع ہے یہ بیرون حدود مقبرہ ستون قائم کر کے اوپر کافی بلندی پر پاٹ کر چھت کو صحن مسجد سابق سے ملا کر مسجد کر دینا چاہتا ہے اس طرح کہ زمینِ مقبرہ نہ رُکے، نہ اس میں دفنِ موتٰی کرنے اور اس کی غرض سے لوگوں کے آنے جانے کی راہ رُکے، نہ اس چھت کے ستون قبورِ مسلمین پر واقع ہوں بلکہ حدودِ مقبرہ سے باہر ہوں تو اس میں حرج نہیں جبکہ وہ زمین جس میں ستون قائم کئے گئے متعلق مسجد ہو اور کاروائی اہل محلہ کی یا اُن کے اذن سے ہو یا وہ زمین اس بانیِ سقف یا کسی دوسرے مسلمان کی مِلک ہو اور مالک اُسے ہر کام کے لئے وقف کر دے یا وہ زمین افتادہ بیت المال کی ہو اور اس میں اس کارروائی سے مسلمانوں کے راستے وغیرہ کو ضرر نہ ہو کہ ان حالتوں میں اس نے کو ئی بیجا تصرف نہ کیا، نہ وقف کو روکا، نہ اُس کی زمین کو کسی دوسرے کام میں صَرف کیا، صِرف بالائی ہوا میں نہ موقوف تھی نہ مملوک، ایک تصرفِ غیرمضر نفع مسلمین کیلئے کیا۔‘‘

أحمد رضا، فتاوى رضويه، 16: 303، رضا فاؤنديشن لاهور

مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق آپ کے ذاتی قبرستان کہ جس میں صرف آپ کے آباؤ اجداد کی ہی قبریں موجود ہیں، اُن پر چھت ڈال کر، اگر آپ مسجد کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں تو اس چھت کو مسجد میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صرف یہ خیال رکھا جائے کہ وہاں نئی قبریں بنانے اور زائرین کو دعا کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے جیسا کہ تفصیل اوپر بیان کر دی گئی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری