اگر دوران تعلیم شوہر اپنی بیوی کو پڑھائے ’انتِ طالق‘ تو طلاق واقع ہوگی؟


سوال نمبر:5682
السلام علیکم! اگر شوہر نے تعلیم دینے کی نیت سے اپنی بیوی کو کہا کہ پڑھو "انت طالق" تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ کیا طلاق میں نیت شرط ہے؟

  • سائل: علی مرتضیمقام: بنگلہ دیش
  • تاریخ اشاعت: 10 جولائی 2020ء

زمرہ: طلاق

جواب:

جب کوئی شخص عام حالات میں طلاقِ صریح کا لفظ بولے اور اس کی نسبت اپنی بیوی کی طرف کرے تو اس کی نیت معتبر نہیں ہوگی۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ نیت کا اعتبار طلاقِ کنایہ میں ہوتا ہے، طلاق صریح میں نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:

أَنَّ الصَّرِيحَ لَا يَحْتَاجُ إلَى النِّيَّةِ.

طلاق صریح نیت کی محتاج نہیں ہوتی۔

ابن عابدين، رد المحتار، باب مطلب في قول البحر إن الصريح يحتاج في وقوعه ديانة إلى النية، 3:250، بيروت: دار الفكر

مراد یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ ’تجھے طلاق ہے‘ یا کہے ’تجھے طلاق دی‘ یا بیوی سے جھگڑتے ہوئے طلاق دے یا بیوی طلاق کا مطالبہ کر رہی ہو تو طلاق کا لفظ بولے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

مگر تعلیم کی خاطر بیوی یا دیگر افراد کو طلاق کے بارے میں پڑھاتے ہوئے طلاق کا لفظ بولنا وقوعِ طلاق کا سبب نہیں بنتا۔

امام ابنِ ھمام اور امام ابنِ نجیم رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں:

لَوْ كَرَّرَ مَسَائِلَ الطَّلَاقِ بِحَضْرَةِ زَوْجَتِهِ وَيَقُولُ: أَنْتِ طَالِقٌ وَلَا يَنْوِي طَلَاقًا لَا تَطْلُقُ.

اگر کوئی اپنی بیوی کی موجودگی میں طلاق کے مسائل دہراتا ہے اور کہتا ہے: تم طلاق یافتہ ہو اور وہ طلاق کی نیت نہیں رکھتا تو طلاق نہ ہو گی۔

  1. ابن همام، فتح القدير، باب إيقاع الطلاق، 4: 4، بيروت: دار الفكر
  2. ابن نجيم، البحر الرائق، باب الطلاق الصريح، 3: 278، بيروت: دار المعرفة

اس لیے بیوی کو فقہ کی تعلیم دیتے ہوئے اگر شوہر پڑھائے کہ ’انتِ طالق‘ تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری