مکرہ کی طلاق کا شرعی حکم کیا ہے؟


سوال نمبر:3099
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ میری شادی کو 18 سال ہو گئے ہیں میرے چار بچے ہیں اِسکے علاوہ میں نے تقریبا 4 سال قبل ایک غیر مسلم لڑکی کو مسلمان کر کےاُس سے شادی کی وہ اپنے خاندان سے الگ ہو گئی اُس کے ایک رشتہ دار نے مجھ پر سیاسی دباؤ ڈالا اور مجھے سیاسی تنظیم گاہ لےگیا۔ وہ شخص وہاں کا سیکیورٹی انچارج تھا اُس نے مجھ پربہت دباؤ ڈالا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ یہاں تک مجھے وہاں لوگوں کے ساتھ شدید دھمکایا اور دباؤ دیکر طلاق کے پیپر پر دستخط کروا لئے اور کہا کہ تمہاری وجہ سے وہ لڑکی مشکل زندگی گزار رہی ہے، ہمیں زبردستی علیحدہ کروایا گیا۔ ہم دونوں طلاق کے لیے بالکل تیار نہیں تھے اِس کے بعد مجبورا دوبارہ اُسی غیر مسلم میں چلےگئی مگر اللہ کا شکر ہے۔اب تک وہ مذہبِ اسلام پر قائم ہے اور شدید مشکل میں ہے،اُس پر ظلم کئے جاتے ہیں، عبادت نہیں کرنے دی جاتی۔ج حضرت میں اُسے اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہوں وہ بھی تیار ہے مجھے ڈر ہےکہ خدانخواستہ دینِ اسلام سے پھر نہ جائے مجھ پر اِس کا شدید عذاب پڑے گا براہِ کرم شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں۔ (جزاک اللہ)

  • سائل: محمد دلاور علی خانمقام: کراچی، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 15 فروری 2014ء

زمرہ: طلاق

جواب:

جو صورت حال آپ نے بتائی ہے اگر واقعی اسی طرح ہے تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی جس کا ثبوت قرآن و حدیث اور کتب فقہ کی روشنی میں درج ذیل ہے :

لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ.

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔

البقره، 2 : 256

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا طلاق ولا عتاق فی اغلاق.

’’جبر واکرہ سے نہ طلاق ہوتی ہے نہ مملوک کی آزادی‘‘

  1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 217، رقم : 2803، دارالکتب العلمية بيروت، سن اشاعت 1990ء
  2. ابن ماجه، السنن، 1 : 660، رقم : 2046، دارالفکر بيروت
  3. بيهقي، السنن الکبری، 7 : 357، رقم : 14874، مکتبة دارالباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1994ء
  4. دارقطني، السنن، 4 : 36، رقم : 99، دارالمعرفة. بيروت، سن اشاعت 1966ء
  5. ابن ابي شيبة، المصنف، 4 : 83، رقم : 18038، مکتبة الرشد الرياض، سن اشاعت 1409ه

رجل اکره بالضرب والحبس علی أن يکتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فکتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق.

’’کسی شخص کو مارپیٹ اور حبس (قید) کے ذریعہ، اپنی بیوی کو تحریری طلاق پر مجبور کیا گیا، کہ فلاں دختر فلاں ابن فلاں کو طلاق اس نے لکھ دیا کہ فلاں عورت فلاں بن فلاں کی بیوی کو طلاق اس کی بیوی کو طلاق نہ ہو گی‘‘

  1. فتاوی قاضی خان علی هامش عالمگيري، 1 : 472، طبع بلوچستان بکدپو، کوئته
  2. زين الدين ابن نجيم الحنفي، غمز عيون البصائر، 3 : 447، دار الکتب العلمية لبنان، بيروت، سن اشاعت1985ء

لو أکره علی أن يکتب طلاق امرأته فکتب لا تطلق.

’’اگر کسی کو مجبور کیا گیا کہ طلاق لکھے اور اس نے لکھ دی تو طلاق نہیں ہو گی‘‘

  1. زين الدين ابن نجيم الحنفي، البحرالرائق، 3 : 264، دارالمعرفة بيروت
  2. شامي، حاشية ابن عابدين، 3 : 236، دارالفکر للطباعة والنشر، بيروت

علامہ شامی فرماتے ہیں :

کل کتاب لم يکتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقرّانّه کتابه.

’’ہر تحریر جو خاوندنے نہ اپنے ہاتھ سے لکھی، نہ خود لکھوائی، اس سے طلاق واقع نہ ہوگی جب تک اقرار نہ کرے کہ یہ تحریر اسی کی ہے‘‘

ابن عابدين، ردالمحتار شامي، 3 : 247

لہٰذا آپ کی بیوی کو طلاق واقع نہیں ہوئی، آپ بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی