سوال نمبر:4585
السلام علیک سر! میری اور میری بیوی کی لڑائی ہو رہی تھی تو میرے بھائی اور ابو بھی آ گئے جنہوں نے مجھے لڑائی روکنے کے لیے کہا۔ میں نے ان کے سامنے بیوی کا نام لے کر کہا کہ ’میں اس کو ایک طلاق دیتا ہوں‘۔ وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ پھر کافی دیر بھائی اور ابو سے بحث ہوتی رہی جس کے بعد میں نے کہا ’جائیں میں اسے دوسری بھی دیتا ہوں‘ اور ہاتھ کا اشارہ کیا۔ لیکن جس طرف اشارہ کیا تھا وہ اس طرف نہیں تھی۔ پھر کچھ دیر کے بعد میں نے ابو اور بھائی کو کہا ’جائیں میں اسے تیسری دیتا ہوں‘۔ مجھے اشکال یہ ہے کہ میں نے دوسری اور تیسری مرتبہ ایک تو ہاتھ کا اشارہ غلط کیا اور دوسرا یہ کہ طلاق کا لفظ نہیں بولا۔ اگرچہ دل میں یہ خیال ضرور تھا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں۔ لیکن دل میں خیال ہونے اور زبان سے لفظ ادا کرنے میں بڑا فرق ہے۔ میں نے سنا ہے کہ طلاق صریح میں صرف الفاظ پر حکم لگتا ہے دل کے خیال پر نہیں، تو میرے مسئلے میں بھی دل کے خیال کو اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔ براہ مہربانی میری مدد فرمائیں، میں بہت پریشان ہوں۔
- تاریخ اشاعت: 02 جنوری 2018ء
جواب:
جب آپ نے پہلی مرتبہ بیوی کا نام لے کر صریح لفظ کے ساتھ طلاق دی ہے تو ’دوسری دیتا
ہوں‘ اور ’تیسری دیتا ہوں‘ سے بھی صریح طلاق ہی مراد لی جائے گی۔ آپ نے دونوں مرتبہ
طلاق کی نیت و ارادہ سے یہ الفاظ دوہرائے ہیں۔ دل کے خیال کی اس وقت تک کوئی اہمیت
نہیں تھی جب تک آپ نے اس کو الفاظ میں تبدیل کر کے زبان سے ادا کیا نہیں تھا، لیکن
جب آپ نے ’دوسری دیتا ہوں‘ اور ’تیسری دیتا ہوں‘ کہا تو اس کا تعلق پہلی گفتگو سے جڑ
گیا جس میں آپ صریح طلاق کا لفظ بول چکے ہیں، اس لیے آپ کی گفتگو کی تاویل کرنا ممکن
نہیں ہے۔ آپ کے بقول آپ نے ہوش و حواس میں تین طلاقیں دی ہیں تو تین واقع ہو چکی ہیں۔
مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
ایک مجلس
میں دی گئی تین طلاق کا کیا حکم ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔