کیا بغیر نیت کے دی جانے والی صریح‌ طلاق واقع ہو جاتی ہے؟


سوال نمبر:3539
السلام علیکم! ہمارے گھر کا ماحول انتہائی پرسکون تھا کہ اچانک ایک دن ابو دکان سے گھر واپس آئے تو غصے میں‌ امی کو طلاق کا لفظ‌ تین بار کہا۔ امی دوسرے کمرے میں‌ چلی گئیں‌ تو ابو بھی پیچھے چلے گئے اور ہم سب کے سامنے کہا کہ میں‌ آپ کو گواہ بنا کے کہتا ہوں‌ کہ میں‌ نے اسے طلاق دی اب یہ چلی جائے۔ چار دنوں‌ کے بعد ابو نے کہا کہ میری نیت طلاق کی نہیں‌ تھی، میں‌ بس غصے میں کہہ گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں‌ نے دوبارہ عام زندگی گذارنی شروع کردی۔ دو سال کے بعد ہمیں‌ لگا کہ ہمیں‌ اس بارے میں‌ فتویٰ‌ لینا چاہیے۔ ابو کسی صورت یہ بات ماننے کو تیار نہیں‌ ہیں‌۔ وہ کہتے ہیں‌ کہ لکھے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔ وہ قرآن پر حلف دینے کے لیے تیار ہیں کہ ان کی طلاق کی نیت نہیں‌ تھی۔ مفتی صاحب! کیا اس معاملے میں‌ کوئی گنجائش موجود ہے؟ کچھ مفتیان کرام کا کہنا ہے کہ ایک سانس یا ایک مجلس میں دی گئی تمام طلاقیں ایک ہی مانی جاتی ہیں، کیا یہ درست ہے؟

  • سائل: علینامقام: راولپنڈی
  • تاریخ اشاعت: 11 مارچ 2015ء

زمرہ: طلاق  |  طلاق صریح

جواب:

انسانی غصہ کی تین حالتیں اور درجے ہیں، جن میں ایک حالت ایسی ہے کہ جس میں انسان کی عقل پر غصہ غالب آجاتا ہے اور اسے اپنے جذبات اور زبان پر قابو نہیں رہتا۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یا کیا کر رہا ہے۔ غصہ کی اس شدید حالت کو پاگل پن اور جنون قرار دیا جاتا ہے اور پاگل و مجنوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔ آپ نے اپنے سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ طلاق دیتے وقت آپ کے والد کا غصہ کس درے کا تھا۔ بہرحال اس کی ممکنہ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں:

  1. اگر آپ کے والد نے انتہائی اور شدید غصے کی حالت میں طلاق دی ہے، کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔
  2. لیکن اگر ان کا غصہ اس شدید اور انتہائی حالت کا نہیں تھا، اور انہیں اس بات کا شعور تھا کہ وہ طلاق دے رہے ہیں تو طلاق واقع ہوگئی ہے۔

لہٰذا طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کا فیصلہ آپ کے والد کی طلاق دیتے وقت غصے کی کیفیت سے ہوگا۔ غصے کی طلاق کے بارے میں مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

غصے کی طلاق کا کیا حکم ہے؟

صریح اور واضح لفظ کے ساتھ دی گئی طلاق میں نیت و ارادہ کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘ تو پھر اس شخص سے اس کی نیت جاننے کی ضرورت نہیں رہتی۔ نیت کا اعتبار اس وقت کیا جاتا ہے کہ جب کسی شخص نے صریح کی بجائے کنایہ کے الفاظ کے ساتھ طلاق دی ہو، جیسے: شوہر نے بیوی سے کہا کہ ’’مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں، چلی جا‘‘ اس صورت میں شوہر سے پوچھا جائے گا کہ ان الفاظ سے اس کی کیا مراد تھی؟ اگر اس کی نیت طلاق کی ہو تو واقع ہوتی ہے اور اگر اس کی نیت طلاق کے سوا ہو تو واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا آپ کے والد کا یہ کہنا غلط ہے کہ صریح الفاظ بولنے کے باوجود ان کی طلاق کی نیت نہیں تھی اس لیے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

کیا طلاقِ صریح میں نیت کا اعتبار کیا جائے گا؟

طلاق زبانی دی جائے یا تحریری، واقع ہو جاتی ہے۔ آپ کے والد کا یہ کہنا کہ جب تک لکھ کے نہ دوں تو طلاق واقع نہیں ہوگی، یہ خیال بھی غلط ہے۔

ایک مجلس میں جتنی بار طلاق دی جائے وہ اتنی بار ہی واقع ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ میں دو طلاقیں دیتا ہوں، تین طلاقیں دیتا ہوں یا اس کے علاوہ کوئی بھی عدد بول کر تخصیص کر دے، تو کوئی شک نہیں کہ وہ کتنی بار طلاق دے رہا ہے۔ وہ جتنا عدد بولے گا، اتنی بار طلاق واقع ہو جائی گی۔ یہ تو ایک عام فہم اور سادہ سی بات جب کوئی عدد بولا جائے تو سے مراد وہی لیا جاتا ہے۔ کبھی کسی عقل مند نے یہ نہیں کیا کہ میں 2، 3 یا 4 کو بھی 1 کہتا ہوں۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کسی نے لفظ ’طلاق‘ ایک سے زائد بار تاکید کے لیے بولا اور نیت صرف ایک طلاق کی تھی، تو ایک طلاق واقع ہوگی۔ جیسے اگر شوہر بیوی سے کہے کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی، پتہ چل گیا ہے نا کہ میں طلاق دے دی ہے، سمجھ رہی ہو نا کہ میں نے طلاق دے دی ہے‘‘ اس صورت میں شوہر نے طلاق کا لفظ تو ایک سے زائد بار بولا مگر اس کا مقصد تاکید تھا، اس لیے صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

کیا ایک مجلس میں‌ دی جانی والی تمام طلاقوں‌ کو ایک طلاق مانا جائے گا؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری