کیا ذہنی مریض کی طلاق واقع ہوتی ہے؟


سوال نمبر:4443
السلام علیکم مفتی صاحب! میں نےکچھ دن پہلےاپنی بیوی کو فون پر 3 دفعہ طلاق دیتے ہوئے کہا: میری طرف سے تجھے طلاق، طلاق، طلاق۔ ہمارا ایک 8 ماہ کا بیٹا بھی ہے۔ میرا طلاق دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ دراصل میں بیمار ہوں، بیماری کی وجہ سے مجھے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ بہت غصہ آ جاتا ہے، جب غصہ آتا ہے تو کچھ سمجھ نہیں آتا‘ پھر سب کے ساتھ جھگڑا ہو جاتا ہے۔ کسی کی تمیز نہیں رہتی۔ کس کو کیا کہ رہا ہوں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ سائیکالوجسٹ کے پاس بھی گیا تھا اس نے میڈیسن دی اور کہا کہ 6 مہینے تک کھانی ہےاگر نہ کھائی تو مسئلہ زیادہ ہو جائے گا‘ میں نے کھائی لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ پھر 2 سال بعد اسی ڈاکٹر کے پاس گیا پھر اس نے اور میڈیسن دی اور کہا کہ ساری زندگی کھانی ہے اگر نہ کھائی تو مسئلہ بہت زیادہ ہو جائے گا میں نےمیڈیسن لے کر کھانی شروع کر دی۔ پھر ابوظہبی آ گیا 3 ماہ بعد میڈیسن ختم ہو گئی میں بھی سمجھا کہ اب ٹھیک ہوں اور ویسے بھی ادھر سے وہ میڈیسن نہیں ملی پھر چھوڑ دی۔ مہربانی فرما کر بتائیں کہ میرے اس قول سے 1 طلاق ہوئی ہے یا 3 یا کوئی بھی نہیں؟

  • سائل: عبدالجبارمقام: فیصل آباد
  • تاریخ اشاعت: 13 اکتوبر 2017ء

زمرہ: طلاق  |  مریض کی طلاق

جواب:

اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ آپ کو بیماری کی وجہ سے شدید غصہ آتا ہے جس میں آپ اپنے حواس اور ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں، تب بھی ہمارے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ طلاق آپ نے کس کیفیت میں دی ہے؟ اگر بیوی کو فون کرتے وقت آپ جانتے تھے کہ آپ اسے طلاق دینے کے لیے فون کر رہے ہیں‌‘ آپ کو معلوم تھا کہ طلاق دینے کا مطلب اور نتیجہ کیا ہوگا اور آپ کو یہ بھی یاد ہے کہ آپ نے بیوی سے کیا بات کی اور اسے کن الفاظ‌ میں کتنی بار طلاق دی ہے تو طلاق واقع ہوچکی ہے۔ اگرچہ یکبارگی تین طلاق اکٹھی دینا ناجائز ہے‘ مگر یہ واقع ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ نے فون‘ طلاق دینے کے لیے نہیں‌ کیا تھا، فون پر بات کرتے ہوئے اچانک لڑائی شروع ہوئی اور آپ لڑائی میں‌ اپنا آپ کھو بیٹھے، حواس قائم نہ رہے اور آپ نے جو منہ میں‌ آیا بول دیا‘ بعد میں کسی نے بتایا کہ تم نے فون پر طلاق بھی دے دی ہے۔ تب احساس ہوا کہ غلطی ہوگئی‘ اس کیفیت میں آپ کے کہے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور اس میں دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں‌ ہوگی۔

ہم نے دونوں صورتیں آپ کے سامنے بیان کر دی ہیں، یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ طلاق دیتے وقت آپ کی کیفیت کیا تھی۔ اسی کے مطابق طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کا حکم لگے گا۔ مسئلہ چونکہ حرام و حلال کا ہے اس لیے خدا کو حاضر ناظر جان کر آپ خود دیکھیں‌ کہ طلاق دیتے ہوئے آپ کس کیفیت میں تھے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری