میاں اور بیوی کے معاملہ میں کس کی گواہی قبول کی جائے گی؟


سوال نمبر:1033
ہمارے ہمسائے میں ایک صاحب نے اپنی حاملہ بیوی کو تین دفعہ طلاق دے دی جس کا کوئی گواہ نہیں ہے۔ اگلے دن وہ شخص اپنی بات سے پھر گیا اور اس نے قرآن پر قسم اٹھا لی کے میں نے طلاق نہیں دی جب کہ اس کی بیوی نے بھی قرآن پر قسم اٹھائی ہے کہ اس شخص نے واقعی تین دفعہ طلاق دے دی ہے اور اب وہ اپنے والدین کے گھر یہ کہ کر چلی گئی ہے کہ میں گناہ کی زندگی نہیں گزار سکتی۔ اب اس خاتون کا سوال ہے کہ اس کا فیصلہ کس طرح ہو گا اور اگر وہ دوبارہ شادی کرنا چاہیں تو ان کے پاس پہلی شادی کے ختم ہونے کا کوئی ثبوت نہیں اور اس وجہ سے مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں ۔ اگر اس کا فیصلہ عدالت سے ہو جیسا کہ ان کو بعض لوگوں نے مشورہ دیا ہے تو کیا ان کو حق مہر ملے گا یا نہیں کیوں کہ غالب گمان یہ ہے کہ شوہر حق مہر ادا نہ کرنے کہ وجہ سے ہی اپنی بات سے پھر گیا ہے۔ اگر عدالت شوہر کے حق میں فیصلہ کر دے اور عورت کو طلاق کا یقین ہو تو پھر طلاق ہونے یا نہ ہونے اور حق مہر کے بارے میں کیا حکم ہے۔

  • سائل: اظہار القدوس نوشاہیمقام: اسلام آباد، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 14 جون 2011ء

زمرہ: طلاق  |  نکاح

جواب:
اگر دونوں نے قرآن پر قسم اٹھائی ہے تو پھر خاوند کی بات مانی جائے گی، بیوی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ یہ فقہاء کرام کا قاعدہ ہے کہ جب میاں بیوی میں اختلاف ہو جائے تو بیوی ثبوت پیش کرے گی اگر وہ ایسا نہ کر سکتے تو خاوند کی بات مانی جائے گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی