خانہ کعبہ کی موجودگی کے باوجود بیت المقدس کو قبلہ کیوں‌ بنایا گیا؟


سوال نمبر:3740
السلام علیکم! میرے چند سوالات ہیں: (1) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں‌ خانہ کعبہ موجود تھا لیکن آقا علیہ السلام نے بیت المقدس کی طرف رخ‌ کر کے نماز پڑھائی، اس کی علت کیا ہے؟ (2) خانہ کعبہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں موجود تھا تو مذاہب سماویہ میں بیت المقدس کی طرف رخ‌ کرنے کا حکم کب ہوا؟ خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی جانکاری کے لیے کوئی کتاب بتا دیں؟

  • سائل: نعیم اخترمقام: انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 23 اکتوبر 2015ء

زمرہ: متفرق مسائل

جواب:

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

  1. رسولِ خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں قیام فرما رہے اس وقت نماز پڑھتے ہوئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس انداز میں کھڑے ہوتے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں آپ کے سامنے ہوتے۔ مگر ہجرتِ مدینہ کے بعد اس ترتیب کو قائم رکھنا ممکن نہ تھا، کیونکہ مدینہ طیبہ سے یروشلم اور مکہ مخالف سمتوں میں تھے۔ اگر مکہ کی طرف رُخ کیا جاتا تو یروشلم کی طرف پشت ہوتی اور اگر یروشلم کی طرف رُخ کیا جاتا تو مکہ کی طرف پشت ہوتی تھی۔ مدینہ طیبہ آمد کے بعد رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم الٰہی تھا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس ہی اہلِ اسلام کا قبلہ رہا، مگر رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمنا یہی تھی کہ کعبۃ اللہ کو ہی قبلہ بنایا جائے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلے میں وحئ الٰہی کا انتظار فرما رہے تھے۔ اس واقعہ کو قرآنِ مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ.

(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیں۔

البقرة، 2: 144

رہا آپ کا یہ سوال کہ خانہ کعبہ کے ہوتے ہوئے بیت المقدس کو قبلہ کیوں بنایا گیا؟ تو اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بیان فرما دیا ہے، ارشاد ہے:

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ.

اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بیشک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے۔

البقرة، 2: 143

درج بالا آیت سے معلوم ہوا کہ دورانِ نماز قبلہ تبدیل فرما کر اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی اطاعت کو پرکھا کہ کون میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پھر جاتا ہے اور کون اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔ خانہ کعبہ کی موجودگی میں بیت المقدس کو قبلہ بنانے کی یہی علت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دی ہے۔

  1. یروشلم میں بیت المقدس کی باقاعدہ تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کی۔ انبیائے بنی اسرائیل کثیر تعداد میں اسی علاقہ میں مبعوث ہوئے، اسی وجہ سے سابقہ مذاہبِ سماویہ کا مرکز بھی یہی علاقہ رہا۔ بیت المقدس اور فلسطین کی دیگر مقدس مقامات کے ساتھ تمام مذاہب سماویہ کا قلبی لگاؤ ہے۔

خانہ کعبہ کی اولین تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے کی۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ. رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ.

اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج کے) قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما، بیشک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔

البقرة، 2: 128، 129

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش کے مطابق بیت اللہ کو اہلِ اسلام کا قبلہ مقرر فرمایا۔

بیت اللہ کی طرف رُخ کر کے عبادت کرنے کا باقاعدہ حکم تو امتِ محمدیہ کے لیے ہی آیا ہے۔ سابقہ امتوں کے لیے بیت المقدس ہی قبلہ کا درجہ رکھتا تھا۔

خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی تاریخ جاننے کے لیے درج ذیل کتب کا مطالعہ نہایت مفید ہے:

  1. البدایۃ و النہایۃ از حافظ ابن کثیر
  2. تاریخ الامم و الملوک از ابنِ جریر طبری
  3. الکامل فی التاریخ از ابنِ اثیر
  4. فتوح البلدان از بلاذری

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی