کیا شادی میں مہندی کی تقریب کا انعقاد جائز ہے؟


سوال نمبر:3575
السلام علیکم جناب! کیا شادی میں مہندی کرنا جائز ہے؟ اگر ہے تو دلیل دیجیے۔ میں آپ کا ایک آرٹیکل پڑھ چکا ہوں وہاں جائز لکھا ہے، مگر مہندی پر تو ڈھول بجائے جاتے ہیں، فضول گانے گائے جاتے ہیں جو سراسر اسلام کے خلاف ہیں۔ آپ نے کہا کہ شادی خاموشی سے نہیں کرنی چاہیے، تو جو لوگ رات کو محفل وغیرہ کرواتے ہیں تو کیا وہ ٹھیک نہیں؟

  • سائل: منیب شاہدمقام: گجرات
  • تاریخ اشاعت: 14 اپریل 2015ء

زمرہ: معاشرت  |  موسیقی/قوالی

جواب:

سب سے پہلے یہ بنیادی اصول ذہن نشین کر لیں کہ دلیل کسی کام کے جواز کے لیے نہیں، بلکہ اس کے ممنوع ہونے کے لیے دی جاتی ہے۔

جس آرٹیکل کا آپ نے حوالہ دیا اس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ شادی کی رسومات اگر اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں تو انہیں انجام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی لیے مہندی یا شادی کی دیگر تقریبات میں اگر عورتیں مرد اکٹھے نہ ہوں، فحش گانے اور بےہودہ رقص کا اہتمام کرنے کی بجائے خواتین کے لیے الگ محفل اور مردوں کے لیے الگ مجلس ہو، تو مہندی کی تقریب سرانجام دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اچھے کلام، ڈھول اور دف کی اجازت تو حدیث مبارکہ میں دی گئی ہے، بلکہ یہاں تک فرمایا گیا کہ حرام (زنا) اور حلال (نکاح) میں فرق ہی ان چیزوں کا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے:

عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ اَعْلِنُوا هَذَا النِّکَاحَ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالْغِرْبَالِ

’’سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نکاح کا اعلان کرو اور اس پر ڈھول بجاو‘‘۔

  1. ابن ماجه، السنن، 1: 611، رقم: 1895، دارالفکر،بيروت
  2. بزار، المسند، 6: 171، رقم: 2214، موسسةعلوم القرآن مکتبة، بيروت
  3. احمد بن ابرهيم، معجم شيوخ، 2: 640، رقم: 271، مکتبةالعلوم والحکم، المدينة المنورة
  4. شوکاني، نيل الاوطار، 6: 336، دارالجيل، بيروت

بعض محدثین نے اسی حدیث مبارکہ کو الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ نقل کیاہے:

عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ  اَظْهِرُوْا النِّکَاحَ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالْغِرْبَالِ

’’سیدہ عائشہ صدیقہ رضي اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نکاح کو ظاہر کرو اور اس پرڈھول بجاو‘‘۔

  1. ابن منصور، السنن، 1: 203، رقم: 635، الدارالسلفية، الهند
  2. ابن راهويه، المسند، 2: 393، مکتبة الايمان المدينة المنورة
  3. اسحاق بن ابراهيم، المسند، 2: 393، رقم: 945، مکتبةالايمان، المدينة المنورة
  4. بيهقي، المتوفي 457، السنن، 7: 290، رقم: 14476، مکتبة دارالباز، مکة المکرمة

اہل لغت کے نزدیک’’الغربال‘‘ کا معنی ومفہوم درج ذیل ہے:

غربل: ’’أعلنوا النکاح واضربوا عليه بالغربال‘‘ أي بالدُّفّ لأنه يُشبه الغِربال في استدارته

’’نکاح کااعلان کرو اور اس پر ڈھول بجاو‘‘ یعنی دف بجاؤ کیونکہ دف گولائی میںڈھول سے مشابہت رکھتاہے۔

ابن اثير، النَّهاية، 3: 352، المکتبة العلمية، بيروت

الغربال (الدف) الذي يضرب به شُبِّه بالغربال في استدارته ومنه الحديث أعلنوا النکاح واضربوا عليه بالغربال (و) يکني بالغربال عن (الرجل النمام)

’’غربال سے مراد دف ہے جس پر ضرب لگائی جاتی ہے اور اس کو غربال (چھلنی) کے ساتھ اس کی گولائی میںتشبیہ دی گئی ہے حدیث پاک میں ہے نکاح کا اعلان کرو اور اس پر غربال (یعنی دف) بجاؤ (جیسے) چغل خور شخص کو بھی کنایۃ غربال کہاجاتاہے‘‘۔

زبيدي، تاج العروس، 30: 88، 89، دارالهداية

چغل خور شخص کو کنایۃ غربال (ڈھول) اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ہرجگہ ڈھول کی طرح بجتا (بولتا) رہتاہے۔

’’أعلنوا النکاح واضربوا عليه بالغربال‘‘ عني بالغربال الدُّفَّ شُبِّه الغربال به

’’نکاح کا اعلان کرو اور اس پر ڈھول بجاؤ‘‘ یعنی دف غربال (ڈھول)کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے۔

ابومنصور، تهذيب اللغة، 8: 202، داراحياء التراث العربي، بيروت

غربل: غربلَ الشی... والغِربالُ: ماغُربِلَ به معروف غربلت الدقيق وغيره... أعلنوا النکاح واضربوا عليه بالغربال؛ عني بالغربال الدُّفَّ شبه الغربال به في استدارتة.

’’غربل: کسی چیز کو چھاننا۔۔۔ اور غربال: جس کے ساتھ اس چیز کو چھانا جائے، جیسے مشہور ہے آٹا چھاننا وغیرہ۔۔۔ نکاح کا اعلان کرو اور اس پر ڈھول بجاو؛ یعنی دف غربال (ڈھول) کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے یہ گولائی میں ڈھول کی طرح ہوتی ہے۔

ابن منظور، لسان العرب، 11: 491، دارصادر، بيروت

الغربال: مايُغَربل به، الدُف، الرجل النمام.

’’چھلنی، دف، چغلخور‘‘۔

لوئيس معلوف، المنجد في اللغة: 548، بيروت

لیکن یاد رہے اسلام دین فطرت ہے۔ ہربات میں توازن واعتدال کی تلقین کرتا ہے۔

کُلُوْاوَاشْرَبُوْاوَلَاتُسْرِفُوْااِنَّه لَايُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

’’کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو! بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔

الاعراف، 7: 31

نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سب عبادات ہیں اور ﷲ رضا کی موجب مگر ان میں بھی اعتدال ہے۔ بعض اوقات میں نماز سے حکماً منع کردیا گیا۔ روزے میں سحری وافطاری کی تاکید کردی اورصوم وصال سے منع فرما دیاگیا۔ عفت و عصمت اور بدکاری سے منع کرکے شادی کا حکم دے دیا تاکہ فطری تقاضے بھی جائز راستے سے پورے ہوسکیں۔ ﷲ کے راستے میں خرچ کرنے کی تلقین وتعریف فرما کر اس میں بھی حدبندی کر دی تا کہ آج کا سخی کل خودنہ مانگتا پھرے۔

عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں:

والمختار أن ضرب الدف والأغانی التی ليس فيها ماينا في الآداب جائز بلا کراهة ما لم يشتمل کل ذلک علی مفاسد کتبرج النساء الأجنبيات في العرس وتهتکهن أمام الرجال والعريس ونحو ذلک والاحرم

’’مذہب مختاریہ ہے کہ دف اور ساز بجانا جس میں آداب کے خلاف کوئی بات نہ ہو، بلا کراہت جائز ہے، جب تک یہ خرابیوں اور بیہودگیوں پر مشتمل نہ ہو (مثلاً بیاہ شادی کے مواقع پر اجنبی عورتوں کا بن ٹھن کر باہرنکلنا، مردوں اور باراتیوں کے سامنے پھدکنا، مٹکنا وغیرہ) ورنہ حرام۔

عبدالرحمن الجزيري، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 4: 9، داراحياء التراث العربي، بيروت، لبنان

شادی بیاہ کی تقریبات میں دف اور ڈھول بجانے کے بارے میں جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے:

دف کا شرعی حکم کیا ہے؟

کیا شادی کی رسومات جائز ہیں؟

حاصلِ کلام یہ کہ اسلام دین فطرت ہے، جو ایک طرف بےحیائی، فحاشی اور فضول خرچی سے منع کرتا ہے تو دوسری طرف تفریح اور خوشی کے مواقع سے لطف اندوز ہونے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ وہ بے جا پابندیاں لگا کر انسان کو کسی خول میں بند نہیں کرنا چاہتا۔ ہمیں بھی بےجا پابندیاں لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔
شادی و خوشی کے موقع پر محفل نعت کرنا باعث ثواب ہے اور اس کا اہتمام خوش نصیبی کی بات ہے، مگر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے دیگر رسوم کی انجام دہی کی بھی ممانعت نہیں ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:

آلات موسیقی کا استعمال کسی صورت میں جائز ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری