محترم مفتی صاحب السلام علیکم!
کچھ دن پہلے میں نے اسکائپ پہ آن لائن نکاح کیا ہے۔ آج کل انٹرنٹ پہ بہت سے ایسے افراد ہیں جو آن لائن نکاح منعقد کرواتے ہیں اور اس کی فیس بھی چارج کرتے ہیں۔ میرا نکاح ایسے ہوا کہ قاری صاحب نے ہمیں کہا کہ ایک کاغذ پے مجھے یہ لکھ کے دیں اور سائن کر کر کے مجھے بھیج دیں کہ ’’میں ارمغان خان ولد شاکر خان اپنے نکاح کا اختیار قاری عبداللہ ولد رسول بخش کو دیتا ہوں کہ وہ میرا نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں تین (3) لاکھ حق مہر کے عوض شمع خان ولد یوسف خان سے کروا دیں‘‘۔ میں نے اور لڑکی نے ایسے ہی لکھ کے اور سائن کر کے قاری صاحب کو بھیج دیا۔ اس کے بعد قاری صاحب نے اسکائپ پے کانفرنس کال کی جس میں ہم تینوں یعنی میں، لڑکی اور قاری صاحب تھے۔ اس کے بعد قاری صاحب نے کہا کی میں آپ کا نکاح شروع کر رہا ہوں اور میرے سامنے دو گواہ بھی بیٹھے ہیں اور ان کے نام یہ یہ ہیں۔ اس کے بعد قاری نے نکاح پڑھایا اور مجھے کہا کہ زور سے بولیں قبول ہے تا کہ پاس بیٹھے دو گواہ بھی سن لیں۔ تین بار میں اور لڑکی نے الگ الگ قبول کیا جیسے نکاح میں کیا جاتا ہے۔ پھر قاری نے کہا کہ آپ تین بار لڑکی کو بھی پروپوز کریں اور میں نے ایسے ہی کیا اور لڑکی نے قبول کیا۔ اس کے بعد قاری نے خطبہ اور دعا پڑھی اور کہا کہ نکاح ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو خوش رکھے۔
مفتی صاحب! یہ سب آڈیو کال پے ہوا تھا اور ہم میں سے کسی نے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا۔
صرف اسکائپ پہ بات ہوئی۔ آپ سے گزارش ہے کہ کیا شرعی اعتبار سے میرا ایسے نکاح کرنا
اسلام میں قابل قبول ہے یا نہیں؟ کیا میرا نکاح ایسے ہو گیا ہے؟
آپ کے جلد جواب کا منتظر۔
جواب:
اگر آپ نے واقعی دوگواہوں کی موجودگی میں، بعوض حق مہر، رضا مندی سے ایجاب و قبول کیا تو شرعاً آپ لوگوں کا نکاح منعقد ہوگیا۔ مگر یہ طریقہ کار بہتر نہیں ہے کیونکہ اس میں خرابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
ٹیلی فون اورانٹر نیٹ پر نکاح سے متعلق مضمون پوری شرح و بسط کے ساتھ سوال نمبر 1164 کے جواب میں پہلے ہی موجود ہے، بہر حال چند ضروری باتیں درج ذیل ہیں:
انٹرنیٹ (Internet) اور ٹیلی فون (Telephone) پر نکاح جائز ہے لیکن اس میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں دھوکہ فراڈ اور غلط بیانی کے امکانات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔
اگر درج بالا احتیاطی تدابیر کو مدّ نظر رکھ کر انٹر نیٹ یا ٹیلی فون پر نکاح پڑھا جائے تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔
اگر گزشتہ سطور میں بیان کردہ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود کسی فریق کی طرف سے بھی کوئی دھوکہ، فراڈ اور غلط بیانی ثابت ہو جائے تو یہ نکاح، نکاح فضولی کی طرح زوجین کو قبول یا رد کرنے کا اختیار ہوگا۔ فریقین آزاد ہونگے کہ جہاں چاہے اپنی رضا مندی سے نکاح کر سکیں گے۔
اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحضہ کیجیے:
ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔