جواب:
ماڈل سکولز یا ایسے تعلیمی ادارے جہاں طلبہ سے فیس لی جاتی ہے، ان میں زکوٰۃ فنڈ جمع کرنا تاکہ نادار اور ضرورت مند طلبہ کی ضروریات پوری کی جائیں۔ بالکل درست بلکہ مناسب تر ہے۔ تاکہ طلبہ کی بروقت امداد کی جائے اور وہ سکون و اطیمنان سے علم حاصل کر سکیں۔ قرآن کریم میں مصارف زکوٰۃ آٹھ بیان ہوئے ہیں۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌo
(التوبه، 9 : 60)
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo
فقہائے کرام فرماتے ہیں :
ان طالب العلم يجوز له اخذ الزکوٰة ولو غنيا اذا فرغ نفسه لافادة العلم و استفادته لعجزه من الکسب والحاجة داعية الی مالا بد منه.
(الدر المختار و الرد المختار 2 : 340)
طالب علم خواہ امیر ہو زکوٰۃ لے سکتا ہے۔ جب اس نے اپنے آپ کو علم پڑھانے اور پڑھنے کے لیے وقف کر رکھا ہے کہ وہ رزق کمانے سے عاجز ہے اور ضروریات زندگی کے حاصل کرنے کی مجبوری اس کے جائز ہونے کا سبب ہے۔
لہذا آپ اپنے تعلیمی ادارے کی ضروریات بالخصوص نادار طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زکوٰۃ وصول کر سکتے ہیں۔ تمام مذہبی اور دیگر رفاہی ادارے زکوٰۃ پر ہی چل رہے ہیں۔ آپ زکوٰۃ فنڈ سے بہتر ہوگا کہ نادار طلبہ کے اخراجات پورے کریں۔ خواہ کتب و سٹیشنری ہو، خواہ فیس و خوراک و پوشاک وغیرہ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔