جواب:
ایمان دراصل تعلقِ مصطفیٰ ﷺ ہی کا نام ہے اور اگر یہ تعلق استوار نہ ہو تو کوئی شخص ایمان کے درجے کو نہیں پہنچا جا سکتا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح ارشاد گرامی ہے:
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں۔‘‘
بخاري، الصحيح، حب الرسول صلي الله عليه وآله وسلم من الايمان، 1 : 14، رقم : 14
یہ حدیث مبارکہ اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایمان کا معیار اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ دنیا و مافیہا کی ہر شے سے بڑھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت کی جائے اور جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو کوئی شخص نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے مومن نہیں ہو سکتا۔
ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : اے عمر! تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو ابھی مرحلۂ تربیت سے گزر رہے تھے عرض کرنے لگے : ’’حضور! مجھے سب سے بڑھ کر آپ کی ذات سے محبت ہے مگر گاہے بگاہے محسوس ہوتا ہے کہ اولاد کی محبت آپ کی محبت سے قدرے زیادہ ہے۔‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے : ’’اے عمر! اگر یہ بات ہے تو تمہارا ایمان ابھی مکمل نہیں ہوا۔‘‘ اس فرمان کے بعد حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دل کی کایا پلٹ گئی، یہاں تک کہ ان کے دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت دیگر تمام محبتوں پر غالب آ گئی اور وہ بے ساختہ پکار اٹھے : رب ذوالجلال کی قسم! اب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے اور مرتے دم تک کبھی کم نہیں ہو گی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الايمان، 6 : 2445، رقم : 6257
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ظاہر و باطن ایک تھا اور ان کے کردار میں منافقت کا شائبہ تک نہ تھا۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر دل کی بات بتا دی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔