جواب:
: ایام مخصوصہ (حالتِ حیض و نفاس) میں خواتین کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ روزہ رکھا تو رائیگاں جائے گا اور اس کی قضاء واجب ہو گی۔ اسلام سہل العمل اور انسانی فطرت کے عین مطابق دین ہے اور شارع ں نے اس کے احکامات اور تعلیمات اس احسن طریق سے دیے ہیں کہ کسی بھی فرد واحد کو اپنی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں اس پر عمل کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہ ہو۔ معاذہ عدویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت کی : کیا بات ہے کہ حائضہ عورت روزہ کی قضا تو کرتی ہے لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : یہ عارضہ ہمیں لاحق ہوتا تھا پھر ہمیں روزے قضا کرنے کا حکم ہوتا مگر نماز قضا کرنے کا حکم نہ ہوتا؟
مسلم، الصحيح، کتاب الحيض، باب وجوب قضاء الصوم علی الحائض دون الصلاة، 1 : 265، رقم : 335
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے قول سے پتہ چلا کہ جس چیز کا شریعت میں حکم دیا جائے یا کسی سے منع کیا جائے، اسے بلا چون و چراں قبول کرنا ہی فرمانبردار امتی کی علامت ہے۔
اگر عقل کی رو سے دیکھا جائے تو ایام مخصوصہ میں خواتین کے لئے ہر ماہ ہفت روز نمازوں کی قضاء روزمرہ زندگی میں ادا کرنا نہایت دشوار ہے جبکہ ماہ رمضان سال میں صرف ایک مرتبہ آتا ہے لہٰذا ان دنوں کے روزوں کی قضاء کرنا نماز کی نسبت زیادہ آسان اور قابل عمل ہے۔ پس اسی آسانی اور سہولت کو پیش نظر رکھتے ہوئے شریعتِ مطہرہ نے ایامِ مخصوصہ میں خواتین کو نمازوں کی مکمل اور روزوں کی قضاء کی رخصت دی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔