کیا ماسک لگا کر نماز ادا کرنا جائز ہے؟


سوال نمبر:6000
السلام علیکم مفتی صاحب! امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ میں پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہوں اور شیخ زید ہسپتال میں فرایض انجام دے رہا ہوں۔ میری عادت ہے کہ میں ہمیشہ اپنی اور دوسروں کی حفاظت کی غرض سے چہرے پر ماسک پہن کر رکھتا ہوں۔ گزشتہ دنوں میں گاؤں میں عید کی چھٹیاں گزارے گیا تھا۔ وہاں میں نماز پڑھ رہا تھا تو امام صاحب نے مجھے کہا کہ چہرے سے ماسک اتار دو کیونکہ چہرہ ڈھانپنے سے نماز نہیں ہوتی۔ جب میں نے انہیں کرونا کی موجودہ صورتحال میں ماسک پہننے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کو کرونا وائرس ہوا ہے تو آپ ماسک پہن کر نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اب میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا وبائی امراض کی صورت میں ماسک پہن کر نماز ادا کی جاسکتی ہے؟

  • سائل: ڈاکٹر محمد احمدمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 27 مئی 2021ء

زمرہ: نماز

جواب:

شریعتِ اسلامی نہایت سادہ اور آسان ہے، اس میں کہیں بھی کسی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں۔ اسلام نے ہر عبادت میں حالات و ظروف کا خیال رکھا ہے، جیسے باجماعت نماز کی ادائیگی کا حکم ہے لیکن بارش یا قدرتی آفت وغیرہ کی صورت میں جماعت کی لزومیت ساقط ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وضو نماز کے لیے شرط ہے لیکن پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم اس کے قائم مقام ہے۔ اسی طرح تمام عبادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے سہولت و گنجائش رکھی ہے اور یہی دینِ اسلام کا طرہ امتیاز بھی ہے۔ شریعت مطہرہ میں بحالت نماز چہرہ ڈھکنے کی ممانعت آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلہ وسَلَّمَ نَهَى عَنِ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ وَأَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ.

بےشک رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل (کپڑا زمین تک لٹکانے) سے منع کیا ہے اور اس بات سے بھی کہ آدمی اپنا منہ ڈھانپے۔

ابو داؤد، السنن، 1: 174، رقم:634

فقہاء نے اس ممانعت کو کراہت پر محمول کیا ہے اور اس ممانعت کی علت یہ بتائی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کفار اپنے چہرے کو ڈھکا کرتے تھے، نیز مجوس بھی آگ کی عبادت کے وقت اپنے چہرہ کو ڈھک لیا کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے دورانِ نماز چہرہ ڈھاپنے سے منع فرمایا۔ تاہم بوقت ضرورت نماز میں چہرہ کا ڈھکنا جائز ہے۔ چنانچہ حدیث مذکور کی شرح میں ملا علی قاری فرماتے ہیں:

چہرہ ڈھکنے کی ممانعت سے مراد یہ ہے کہ بلاضرورت چہرہ ڈھکے رہنا، اگر کوئی ضرورت پیش آجائے تو چہرہ ڈھکنا جائز ہے۔

ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، 2: 636

موجودہ صورت حال میں کہ جب منہ کے ذریعہ کرونا کی بیماری پھیلنے کا خدشہ اہل فن کے ہاں متحقق و ثابت شدہ ہے، تو ایسے میں منہ پہ ماسک لگانا بالکل ویسے ہی جائز و درست ہے جیسا کہ قیام سے عاجز کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا اور بیٹھنے کی سکت نہ رکھنے والے کے لیے پہلو کے بل لیٹ کر اشاروں سے نماز ادا کرنا جائز ہے۔ یہ رخصت بوقت ضرورت بقدر ضرورت ہی رہے گی، یعنی عام حالات میں بلا عذر ناک اور منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، عذر کی صورت میں جیسے سانس کے لیے ذریعے بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہو‘ تو ماسک لگا کر نماز کی ادائیگی میں مضائقہ نہیں۔

نماز کی حالت میں ماسک پہننے کو بالکلیہ ممنوع قرار دینا اس سے بیماری اور ہلاکت کے خدشات کو بڑھاتا ہے اور شرعاً بیماری اور ہلاکت سے بچنا مطلوب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ.

خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

البقرۃ، 2: 195

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا.

اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔

النساء، 4: 29

اور ماسک کا نہ پہننا قتل نفس کا سبب ہو سکتا ہے۔

معلوم یہ ہوا کہ ضرورت کے سبب نماز میں چہرہ ڈھکا جا سکتا ہے، خاص کر جب صحت اور جان کے ضرر کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں ماسک کا استعمال اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔
آج کل ہم جو ماسک لگاتے ہیں وہ ’کورونا‘ جیسے متعدی اور مہلک مرض سے بچنے کے لیے ، جو ڈاکٹروں کے مطابق صحت وجان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، اور اکراہ کی صورت میں جان کی حفاظت کے لیے تو کفر وشرک تک کا ارتکاب شریعت نے روا رکھا ہے تو پھر اس وبا میں جان کی حفاظت کے لیے مکروہ کا ارتکاب کیوں کر جائز نہیں ہو سکتا؟ نیز یہ کہ نماز میں قبلہ کا استقبال ایک اہم شرط ہے، قبلہ رخ کیے بغیر نماز نہیں ہوگی، لیکن جب حالت جنگ ہو تو اس میں جان کی حفاظت کو مطمح نظر رکھتے ہوئے قبلہ کی شرط ساقط ہوجاتی ہے اور آدمی جس طرف بھی رخ کرکے چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح وبائی متعدی مرض ’کورونا‘ میں بھی ماسک نہ پہننا صحت اور نفس کے لیے مہلک ہو سکتا ہے، اس لیے اس کا پہننا شرعا مطلوب ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔