کیا نماز میں فقط سورہ فاتحہ کی تلاوت سے قرات کا فرض ادا ہو جائے گا؟


سوال نمبر:5090
السلام علیکم! میرا سوال 5064 کی مزید تفصیل کے لیے ہے۔ نماز میں‌ قرات فرض ہے، کیا سورہ فاتحہ کی تلاوت سے یہ فرض ادا ہو جاتا ہے؟ یا سورت ساتھ ملانا لازم ہے؟ اگر کوئی سورہ فاتحہ پڑھنا بھول جائے تو کیا حکم ہے؟

  • سائل: نبیل فیاضمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 15 اکتوبر 2018ء

زمرہ: نماز  |  نماز میں قرات

جواب:

فرائض کی پہلی دو رکعات اور وتر، سنن و نوافل کی تمام رکعات میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی چھوٹی سورہ یا اس کے برابر بڑی آیت ملانا واجب ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ.

پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو۔

الْمُزَّمِّل، 73: 20

قرآن مجید سے صرف بآسانی قرأت کرنے کا حکم ملتا ہے جبکہ احادیثِ مبارکہ میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

أَمَرَنَا نَبِیُّنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَمَا تَیَسَّرَ.

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سورہ فاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم سے میسر آئے پڑھا کریں۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 45، رقم: 11433، مصر: مؤسسة قرطبة
  2. أبي داود، السنن، كتاب الصلاة، باب من ترك القراءة في صلاته بفاتحة الكتاب، 1: 216، رقم: 818، دار الفکر

سورۃ ملانے کا یہ حکم فرائض کی صرف پہلی دو رکعات کے لیے ہے جیسا کہ حضرت عبداﷲ بن ابو قتادہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ماجد نے فرمایا:

کَانَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم یَقْرَأُ فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْأُولَیَیْنِ مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَسُورَتَیْنِ یُطَوِّلُ فِي الْأُولَی وَیُقَصِّرُ فِي الثَّانِیَةِ وَیُسْمِعُ الْآیَةَ أَحْیَانًا وَکَانَ یَقْرَأُ فِي الْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَسُورَتَیْنِ وَکَانَ یُطَوِّلُ فِي الْأُولَی وَکَانَ یُطَوِّلُ فِي الرَّکْعَةِ الْأُولَی مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَیُقَصِّرُ فِي الثَّانِیَةِ.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد دو سورتیں پڑھتے۔ پہلی میں طویل قرأت کرتے اور دوسری میں مختصر رکھتے اور کسی آیت کو قصداً سنا بھی دیتے اور نماز عصر میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے اور پہلی رکعت میں قرأت طویل فرماتے اور نماز فجر کی پہلی رکعت میں بھی قرأت فرماتے اور دوسری میں مختصر پڑھتے۔

  1. بخاري، الصحیح، كتاب صفة الصلاة، باب القراءة في الظهر، 1: 264، رقم: 724، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
  2. مسلم، الصحیح، كتاب الصلاة، باب القراءة في الظهر والعصر، 1: 333، رقم: 451، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

اور عبدالرحمان الجزیری لکھتے ہیں:

ضم سورة إلی الفاتحة في جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفي في أداء الواجب أقصر سورة أو ما یماثلها کثلاث آیات قصار أو آیة طویلة والآیات القصار الثلاث.

نفل اور وتر کی ہر (رکعت میں) اور فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کسی اور سورۃ کا پڑھنا (واجب ہے)۔ چھوٹی سے چھوٹی سورہ یا اس کے برابر قرآنِ مجید کی آیتیں جیسے تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت پڑھ لینے سے واجب ادا ہو جاتا ہے۔

عبدالرحمان الجزیری، الفقه علی مذاهب الأربعة، 1: 259، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

لہٰذا نماز میں مطلقاً قرآن مجید پڑھنا فرض ہے جبکہ سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ سورت ملانا واجب ہے۔ اگر کوئی سورہ فاتحہ پڑھنا بھول جائے یا اس کے ساتھ سورت ملانا بھول جائے مگر دونوں میں سے ایک عمل کر لے تو فرض ادا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی فرائض کی پہلی دو رکعات، سنن و نوافل اور وتر کی تمام رکعات میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورت ملانا بھول جائے یا سورہ فاتحہ بھول جائے مگر کوئی اور سورہ پڑھ لے تو سجدہ سہو کرنے سے اس کی نماز ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی جان بوجھ کر سورہ فاتحہ نہ پڑھے یا سورہ نہ ملائے تو نماز لوٹانا واجب ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری