جواب:
کوئی بھی شخص جو حالتِ ایمان میں اس دنیا سے رخصت ہوا ہو اس کے لیے ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے۔ مسئلہ ہٰذا میں بھی اگر کچھ لوگ مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے کوئی تقریب کرتے ہیں، فلاحِ عامہ کا کوئی کام کرتے ہیں یا کوئی تعلیمی ادارہ بناتے ہیں تو ممانعت نہیں ہے۔ اس کے برعکس مبالغہ آرائی کر کے مرحوم کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور بناوٹی کرامات بیان کرنے پر سارا زور لگاتے ہیں تو یہ شرعاً ممنوع اور قانوناً دھوکہ دہی و فریب کاری ہے۔ ان کے اس عمل سے مرحوم کی حقیقت جاننے والے لوگوں کے ذہن میں حقیقی اولیاءاللہ اور ان کی درگاہوں سے متعلق وسوسے پیدا ہوں گے، اور ساتھ ہی درگاہوں کے معترضین کو بھی کہنے کا موقع ملے گا کہ درگاہوں پر مدفون اولیاء بھی حقیقت میں انہی مرحوم کے جیسے ہی تھے۔
مزید برآں ہمارے معاشرے کا چلن بن گیا ہے کہ شعبدہ بازیوں سے کوئی بھی مفادپرست کسی مرحوم کا مزار بناتا ہے اور خود اس کا مجاور بن جاتا ہے، پھر نذرانے وصول کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے، پھر عرس اور میلے ٹھیلے شروع ہوتے ہیں، چندے جمع ہوتے ہیں اور مجاوروں کا اثر و رسوخ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ان کی دھوکہ دہی سے پردہ چاک کرنا اور صاحبِ مزار کی حقیقت بتانا ممکن ہی نہیں رہتا۔ اس سے اسلام اور اہلِ سنت کی بدنامی بھی ہوتی ہے اور جان و مال اور عزت و عفت پر ڈاکے بھی پڑتے ہیں۔ اس لیے ایسی صورتحال پیدا ہوتے ہی قانونی اداروں کے علم میں لانا چاہیے اور انہیں قانونی انداز میں اس کا سدباب کرنے دینا چاہیے۔
ہماری رائے یہ ہے اگر مرحوم کی حقیقت وہی ہے جو سائلِ نے بیان کی ہے تو سائل و ہمنوا قانونی اداروں کو اطلاع دیں کہ یہاں مفادپرستی کی خاطر ڈھونگ رچایا جا رہا ہے، قانونی اداروں کو مطلع کرنے کے بعد مضافاتی علاقوں میں علماء کو اطلاع کریں اور ان سے لوگوں کو خبردار کرنے کی استدعا کریں۔ مزید یہ کہ مرحوم کی مرقد کے قریب جہاں ممکن ہو مرحوم کی حقیقی زندگی سے متعلق سچائی پر مبنی تحریرات آویزاں کریں۔ تاہم سائل یا ان کے ہمنوا مرحوم سے متعلق دل میں کوئی بغض یا کینہ نہ رکھیں، اپنے اور مرحوم کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں، خود بھی مرحوم کو ایصالِ ثواب کریں اور دوسروں کو بھی ایصالِ ثواب کرنے سے نہ روکیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔