صوم و صلاۃ کے تارک کو مرشد بنانے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:3931
السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کہ آج کل جو "پیر" مرشد بن کر مریدوں سے سنت "پیسہ" لیتے ہیں، کیا یہ پیسہ دینا ضروری ہے؟ بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ اگر مرشد کو "سنت" نہیں دی تو سائیں! بددعا دے گا۔ اور کیا ایسے "پیر" کو مرشد بنانا جائز ہے جو نماز بھی نہ پڑھتا ہو؟ چاہے وہ عبدالقادر جیلانی کے خاندان کا کیون نہ ہو، براہ کرم وضاحت فرما دیں۔

  • سائل: کلیم اللہ سنگراسیمقام: تھر پارکر
  • تاریخ اشاعت: 16 جون 2016ء

زمرہ: بیعت  |  تصوف

جواب:

مُرشِد عربی کے لفظ ’اَرشَدَ‘ سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ سیدھا راستہ دکھانے کے ہیں۔ اصطلاحاً مُرشِد اس شخصیت کو کہا جاتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکام اور شریعت کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق نہ صرف خود زندگی گزار رہا ہو بلکہ دوسروں کو بھی راہِ ہدایت کی طرف بلاتا ہو۔ اگر کوئی شخص خود احکامِ الٰہیہ کا تارک ہو تو وہ بھلا دوسروں کو راہِ ہدایت کیسے دکھا سکتا ہے؟ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا.

جسے اﷲ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کے لئے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے۔

الْكَهْف، 18: 17

درج بالا آیت میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اوامر و نواہی، حلال و حرام اور حدوداللہ کی تمیز نہ کرے وہ نہ مرشِد ہو سکتا ہے اور نہ مرشَد (مرید) ہونے کا اہل ہے۔

لہٰذا جو شخص صوم و صلاۃ کا تارک اور جاہل ہو اسے مرشد بنانا جائز نہیں۔ احکامِ الٰہیہ کا تارک شخص ہوا میں اڑ کے دکھائے یا پانی کی سطح چلنے کا دعویٰ کرے اس سے ہدایت کی امید رکھنا بےسود ہے۔ دین کے فروغ کے لیے کوشاں افراد کی ہی مالی مدد کی جانی چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری