جواب:
نماز خزائنِ رحمت کی کنجی ہے۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کو نماز کی دعوت دیتے ہیں اور نماز قائم کرنے کی تلقین کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل گھر میں رحمتِ الٰہی کے نزول باعث بنتا ہے۔ اِس لیے ہر صاحبِ ایمان مرد و عورت کا ایمانی اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ خود بھی نماز قائم کرے اور اپنے شریکِ حیات و اہلِ خانہ کو بھی نماز کی دعوت دے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَا ؕ لَا نَسْـَٔلُكَ رِزْقًا ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰی.
اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے رزق طلب نہیں کرتے (بلکہ) ہم آپ کو رزق دیتے ہیں، اور بہتر انجام پرہیزگاری کا ہی ہے۔
طهٰ، 20: 132
اس آیتِ مبارکہ کہ اوّلین مخاطب تو رسول اللہ ﷺ ہیں، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ اپنے اہلِ خانہ کو نماز کی دعوت دیں، مگر یہ حکم قیامت تک باقی ہے اور آپ ﷺ کی تمام امت کیلئے نماز کی ترغیب کا باعث ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے شریکِ حیات کو نماز کی دعوت دینے کا اجر بیان کرتے ہوئے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى، وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ، فَإِنْ أَبَتْ، نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ، وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا، فَإِنْ أَبَى، نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اُس آدمی پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اور انپی بیوی کو جگاتا ہے، اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو جگاتی ہے، اگر وہ انکار کرے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے۔‘‘
درج بالا آیت و روایت اپنے مفہوم میں بہت واضح ہیں، ان سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کو نماز کی دعوت دینا احسن عمل ہے، قرآن و حدیث میں اس عمل کو مستحسن اور باعثِ اجر قرار دیا گیا ہے۔
قیامت کے دن ہر شخص سے اُس کے اپنے عمل کے بارے میں سوال ہوگا، ہر شخص سے اس کی اپنی نماز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور اُس کی قائم کردہ نمازوں کی جزا اُسی شخص کو ملے گی، اسی طرح جو نمازیں اس نے ادا نہیں کی اُن کا وبال بھی اُسی شخص پر ہوگا۔ کسی شخص سے دوسرے کی نمازوں کا نہ تو سوال ہوگا، اور نہ وہ دوسروں کی نمازوں کی جزا یا سزا پائے گا۔ نماز کی دعوت دینا تو باعثِ اجر ہے لیکن خدا کی عدالت میں کسی سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ تمہارے شریکِ حیات نے نماز ادا نہیں کی اُس کی وضاحت بیان کرو، اور نہ یہ سوال ہوگا کہ تم نے شریکِ حیات کو نماز کی دعوت دی تھی یا نہیں؟ ہر نماز کیلئے اذان ہوتی ہے جو ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد و عورت کیلئے نماز کی دعوت ہی ہے۔ اذان سن کر اگر کوئی مرد یا عورت نماز سے سستی کرتا ہے/کرتی ہے، تو اِس کی وبال اُسی پر ہے، اس کے شریکِ حیات پر نہیں۔ قیامت کے دن کوئی شخص بھی کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَاتَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَا ۚ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ۚ
اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
الْأَنْعَام، 6: 164
اس آیتِ مبارکہ میں بھی یہی اصول واضح کیا جا رہا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا تقاضا یہی ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو نماز کی دعوت دیں، نماز قائم کرنے کی تلقین کریں اور نماز چھوڑنے پر اس کی سزا کی یاد دہانی کروائیں، نماز کے فضائل پر بات کریں، ایک دوسرے کو ترغیب دیں، اگر دوسرا نماز قائم نہیں کرتا تو اس کا وبال اُسی پر ہوگا۔ شوہر اپنے نیکی و برائی کا ذمہ دار اور بیوی اپنے سزا و جزا مستحق ہے۔ یہی شرع اور عقل اصول ہے۔
کسی دوسرے کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت دینے سے قبل خود اس پر عمل پیرا ہونا چاہے، مثال کے طور پر ایک شخص دوسروں کو نماز کی دعوت دیتا ہے لیکن خود نماز کی پابندی نہیں کرتا تو اس کی دعوت بےاثر اور بےثمر ہوگی۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰ نے ایسی دعوت کو ناپسند کیا ہے: ارشادِ ربانی ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ.
اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔
الصَّفّ، 61: 2
اس لیے دوسرے کو دعوتِ نماز دینے سے پہلے مدعی کو خود نماز کا پابند بننا چاہیے تاکہ اس کی دعوت میں اثر پیدا ہو۔ اگر خود عمل کیے بغیر دوسروں کو دعوت دے گا تو یہ دعوت بےاثر رہے گی۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کو بھی ناپسند ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ.
اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔
الصَّفّ، 61: 3
اس سے واضح ہوا کہ مدعی کا خود کسی بات پر خود عمل کیے بغیر دوسروں کو اس کام کی دعوت دینا اللہ تعالیٰ انتہائی ناپسند ہے۔ اس لیے شوہر کا خود نماز پڑھے پغیر بیوی کو دعوتِ نماز دینا ناپسندیدہ عمل ہے۔ اگر کسی وجہ سے نماز رہ جائے تو نماز کا وقت ختم ہونے پر اس کی قضاء پڑھی جاسکتی ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ، طعن و تشنیع یا عزتِ نفس مجروح کرکے نماز کی تلقین کرنا نماز کی دعوت دینے بدترین طریقہ ہے، اس طریقے سے دعوت دینا ثابت کرتا ہے کہ مدعی کو دوسرے کی نماز یا آخرت کے عذاب کی فکر نہیں بلکہ اسے نیچا دکھنا مقصود ہے جس کے لیے نماز محض ایک بہانہ ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔