جواب:
سائل نے جو حدیثِ مبارکہ نقل کی ہے وہ مکمل متن کے ساتھ ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔ سائل کا لگایا ہوا حاشیہ مناسب نہیں ہے۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عُمْرَانُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ يَثْرِبَ، وَخَرَابُ يَثْرِبَ خُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ، وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ قُسْطَنْطِينِيَّةَ، وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِ الَّذِي حَدَّثَهُ، أَوْ مَنْكِبِهِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذَا لَحَقٌّ كَمَا أَنَّكَ هَاهُنَا، أَوْ كَمَا أَنَّكَ قَاعِدٌ، يَعْنِي مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ.
’’حضرت معاز بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس کی آبادی میں یثرب کی بربادی ہے اور یثرب کی بربادی میں جھگڑوں کا پیدا ہونا ہے اور جھگڑوں کے پیدا ہونے میں قسطنطنیہ کی فتح ہے اور قسطنطنیہ کی فتح میں دجال کا نکلنا ہے۔ پھر اپنا دست مبارک روایت کرنے والے کی ران یا کندھے پر مار کر فرمایا: یہ اسی طرح یقینی ہے جیسے تمہارا یہاں ہونا یا جیسے تم بیٹھے ہو یعنی حضرت معاذ بن جبل کا وہاں ہونا یا بیٹھنا۔‘‘
أبو داود، السنن، كتاب الملاحم، باب في إمارات الملاحم، 4: 110، الرقم: 4294، بيروت: دار الفكر
سائل نے حدیثِ مبارکہ کا اطلاق کرنے میں بہت جلد کی ہے۔ ابھی ایسے حالات نہیں ہیں کہ موجودہ دور کو دجال کے خروج کا زمانہ کہا جائے۔ ابھی بہت سی نشانیاں باقی ہیں جن کے وقوع کے بعد دجال نکلے گا یا دیگر فتنے ظاہر ہوں گے۔ اس لیے سائل کی شرح درست نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔