جواب:
قسم کھانے کی دو صورتیں ہیں:
صورت اول کی مزید دو قسمیں ہیں: (1) وہ قسم جو لاعلمی یا غلط فہمی کی وجہ سے کھائی گئی ہو‘ یعنی انسان ماضی کے کسی واقعہ کے متعلق غلط فہمی کی بنیاد پر قسم کھائے کہ فلاں کام ایسے ہوا تھا، لیکن حقیقت میں ویسا نہ ہو۔ اِسے یمینِ لَغْو یعنی غلط فہمی کی قسم کہا جاتا ہے اور اس پر نا گناہ ہے اور اس کا کوئی کفارہ ہے۔ (2) ماضی میں ہونے والے کسی کام کے متعلق قسم کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی گزرے ہوئے واقعہ کے متعلق جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوئے قسم کھائے، یہ یمینِ غَموس یعنی جھوٹی قسم کہلاتی ہے۔ یمینِ غموس حرام ہے، اس کا کوئی مالی کفارہ تو نہیں، البتہ اس پر توبہ و استغفار لازم ہے اور آئندہ ایسا کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
مستقبل کے کسی معاملے کے متعلق کھائی گئی قسم یمینِ منعقدہ کہلاتی ہے، ایسی قسم توڑنا منع ہے اور توڑنے کی صورت میں قسم کھانے والے پر کفارہ لازم آتا ہے۔ اس کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو یا غلام میسر نہ ہو تو پھر دس مسکینوں کو دو وقت کا پیٹ بھر درمیانے درجے کا کھانا کھلانا، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پھر دس مسکینوں کو اوسط درجے کا لباس فراہم کرنا ہے۔ اگر تینوں میں سے کسی صورت کو بھی اختیار کرنے کی مالی استطاعت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنا ہے۔
صورتِ مسئلہ میں جس شخص نے قسم اٹھائی ہے اسے اپنی صفائی دینے یا سچائی ثابت کرنے کیلئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ قسم کسی بات کے انکار کرنے کے لیے کھائی جاتی ہے ناکہ اپنا دعویٰ ثابت کرنے لے لیے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے، ایک مقام حضرموت سے اور دوسرا کندہ سے۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! اس شخص (کندی) نے میرے باپ کی طرف سے ملی ہوئی زمین کو مجھ سے چھین لیا، کندی نے کہا وہ میری زمین ہے اور میرے تصرف میں ہے میں اس میں زراعت کرتا ہوں، اس شخص کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَلَکَ يَمِينُهُ قَالَ: يَا رَسُولَ ﷲِ إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَی مَا حَلَفَ عَلَيْهِ. وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْئٍ فَقَالَ لَيْسَ لَکَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ. فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ، لَمَّا أَدْبَرَ أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَی مَالِهِ لِيَاْکُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ ﷲَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ.
پھر اس (کندی) شخص کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! یہ جھوٹا ہے، جھوٹ پر قسم اٹھا لے گا، یہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔ جب کندی قسم کھانے کے لیے مڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس شخص نے اس کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو اللہ سے جب ملاقات کرے گا اور وہ اس سے ناراض ہو گا۔
مذکورہ بالا تصریح سے ثابت ہوا کہ مدعی ثبوت پیش کرتا ہے، اگر اس کے جواب میں مدعیٰ علیہ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو اپنی صفائی کے لیے قسم یا حلف دیتا ہے۔
قسم قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر کھائی جائے، قرآنِ مجید سر پر رکھ کر کھائی جائے یا بغیر قرآن اٹھائے کھائی جائے، قسم یکساں ہی رہتی ہے۔ قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھنا یا قرآنِ مجید سر پر رکھنا محض اپنی قسم کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی شخص قرآنِ مجید سر پر رکھ کر صحیح بات کہے یا بغیر قرآن کو اٹھائے سچ کہے‘ برابر ہے، تاہم قرآنِ مجید سر پر رکھ کر یا قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانا‘ گناہ کی سنگینی کو بڑھا دیتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قسم کھاتے ہوئے قرآنِ مجید سر پر رکھنا یا قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھنا‘ اپنی قسم اہمیت جتانے کے لئے کیا جاتا ہے، اسی طرح کسی سے قسم لیتے ہوئے اس کے سر پر قرآنِ مجید رکھنا یا قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھوانا اسے ڈرانے کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ جھوٹی قسم نہ کھائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔