جواب:
وقوفِ مزدلفہ واجباتِ حج میں سے ہے، بلاعذرِ شرعی اس کو ترک کرنا موجبِ دم ہے۔ اس لیے رات اور طلوعِ فجر کے بعد کچھ وقت مزدلفہ میں قیام کرنا واجب ہے اور طلوعِ آفتاب سے پہلے پھیلے والی روشنی تک وہاں رکنا سنت ہے۔ حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يُفِيضُونَ حَتَّى يَرَوُا الشَّمْسَ عَلَى ثَبِيرٍ، فَخَالَفَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ.
جاہلیت والے اس وقت نہ لوٹتے جب تک ثبیر پہاڑ پر سورج کو طلوع ہوتا ہوا نہ دیکھ لیتے، اور حضور نبی کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی مخالفت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورج طلوع ہونے سے پہلے لوٹ آتے۔
حدیث مبارکہ کے مطابق سورج طلوع ہونے سے پہلے روانہ ہو جانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ صاحب ہدیہ اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں فرماتے ہیں:
وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ إذَا أَسْفَرَ أَفَاضَ الْإِمَامُ وَالنَّاسُ، لِأَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ دَفَعَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ.
اور صحیح یہ ہے کہ جب خوب روشنی ہو جائے تو امام اور لوگ روانہ ہوں، اس لیے کہ آپ علیہ السلام طلوع شمس سے پہلے روانہ ہوئے ہیں۔
المرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 147، المكتبة الإسلامية
علامہ علاء الدین کاسانی مذکورہ بالا حدیث مبارکہ ک حوالہ دے کر مزدلفہ سے منیٰ کی طرف جانے کے وقت کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
ثُمَّ يَدْفَعُ مِنْهَا إلَى مِنًى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ لِمَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ أَنَّهُ قَالَ إنَّ الْجَاهِلِيَّةَ كَانَتْ تَنْفِرُ مِنْ هَذَا الْمَقَامِ وَالشَّمْسُ عَلَى رَؤُوْسِ الْجِبَالِ فَخَالِفُوهُمْ فَأَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ... وَإِنْ دَفَعَ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ الْفَجْرَ فَقَدْ أَسَاءَ وَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ أَمَّا الْإِسَاءَةُ فَلِأَنَّ السُّنَّةَ أَنْ يُصَلِّيَ الْفَجْرَ وَيَقِفَ ثُمَّ يُفِيضَ فَإِذَا لَمْ يَفْعَلْ فَقَدْ تَرَكَ السُّنَّةَ فَيَكُونُ مُسِيئًا وَأَمَّا عَدَمُ لُزُومِ شَيْءٍ فَلِأَنَّهُ وُجِدَ منه الرُّكْنُ وَهُوَ الْوُقُوفُ وَلَوْ سَاعَةً.
پھر طلوع آفتاب سے پہلے منیٰ کی جانب روانہ ہوں، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اہل جاہلیت اس مقام سے اس وقت کوچ کرتے تھے جبکہ سورج پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہوتا تھا، تم ان کی مخالفت کرو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طلوع آفتاب سے پہلے روانہ ہوئے۔۔۔ اگر کوئی شخص طوعِ فجر کے بعد لیکن لوگوں کے نماز فجر پڑھنے سے پہلے روانہ ہو گیا تو اس نے برا کیا، اگرچہ (کفارہ وغیرہ) کچھ لازم نہیں ہو گا۔ برا تو اس لیے ہے کہ اس نے سنت ترک کی۔ اس لیے کہ سنت یہ ہے کہ نماز فجر پڑھے، وقوف کرے پھر روانہ ہو۔ اور کفارہ کا لازم نہ ہونا اس لیے ہے کہ رکن وقوف پایا گیا۔ اگرچہ ایک گھڑی کا ہے۔
كاساني، بدائع الصنائع، فصل وأما بيان سنن الحج، 2: 156، بيروت: دار الكتاب العربي
اگر کوئی شرعی عذر لاحق ہو تو وقوفِ مزدلفہ کو مختصر یا ترک کر کے فجر کی نماز منیٰ میں ادا کر سکتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے چاہا کہ میں بھی حضرت سودہ کی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کر لیتی اور صبح کی نماز منٰی میں پڑھتی اور لوگوں کے آنے سے پہلے جمرہ میں کنکریاں مار لیتی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کیا حضرت سودہ نے اجازت لے لی تھی؟ انہوں نے فرمایا:
نَعَمْ، إِنَّهَا كَانَتِ امْرَأَةً ثَقِيلَةً ثَبِطَةً، فَاسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنَ لَهَا.
ہاں وہ ایک بھاری بدن کی عورت تھیں انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔
مسلم، الصحيح، كتاب الحج، باب استحباب تقديم دفع الضعفة من النساء وغيرهن من مزدلفة إلى منى في أواخر الليالي قبل زحمة الناس واستحباب المكث لغيرهم حتى يصلوا الصبح بمزدلفة، 2: 939، الرقم: 1290، بيروت: دار إحياء التراث العربي
حضرت عروہ بن مفرس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مزدلفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں طے کے پہاڑوں سے آتا ہوں اور میں نے سواری کو عاجز کر دیا اور خوب مشقت اٹھائی، میں نے کوئی ایسا ٹیلہ نہ چھوڑا جس پر میں نہ ٹھہرا ہوں تو کیا میرا حج مکمل ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَلَّى صَلَاةَ الْغَدَاةِ هَا هُنَا مَعَنَا، وَقَدْ أَتَى عَرَفَةَ قَبْلَ ذَلِكَ، فَقَدْ قَضَى تَفَثَهُ، وَتَمَّ حَجُّهُ.
جس شخص نے ہمارے ساتھ نماز فجر پڑھی اور اس سے قبل وہ عرفات میں ٹھہرا تو اس کا حج مکمل ہو گیا اور اس نے اپنا میل کچیل صاف کیا۔
النسائي، السنن، كتاب مناسك الحج، باب فيمن لم يدرك صلاة الصبح مع الإمام بالمزدلفة، 5: 264، الرقم: 3043، حلب: مكتب المطبوعات اسلامية
علامہ کاسانی فرماتے ہیں:
وَأَمَّا حُكْمُ فَوَاتِهِ عَنْ وَقْتِهِ أَنَّهُ إنْ كَانَ لِعُذْرٍ فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ لِمَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ، وَلَمْ يَأْمُرْهُمْ بِالْكَفَّارَةِ، وَإِنْ كَانَ فَوَاتُهُ لِغَيْرِ عُذْرٍ فَعَلَيْهِ دَمٌ؛ لِأَنَّهُ تَرَكَ الْوَاجِبَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ، وَإِنَّهُ يُوجِبُ الْكَفَّارَةَ.
اور اگر کہیں وقوف مزدلفہ اپنے وقت سے کسی عذر کی وجہ سے فوت ہو جائے تو اس پر کچھ لازم نہیں، کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل میں سے ضعف کو مقدم کیا اور انہیں کفارے کا امر نہیں فرمایا اور اگر کہیں بغیر کسی عذر کے فوت ہو جائے تو اس پر دم لازم ہو گا، کیونکہ اس نے بغیر کسی عذر کے واجب کو ترک کر دیا ہے اور اس سے کفارہ واجب ہوتا ہے۔
كاساني، بدائع الصنائع، فصل وأما حكم فواته عن وقته، 2: 136
درج بالا تصریحات سے واضح ہوا کہ کسی شرعی عذر کی صورت میں مزدلفہ کا قیام مختصر کیا جاسکتا ہے اور پوہ پھوٹنے سے پہلے مزدلفہ سے روانہ ہوا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی عذر نہ ہو تو طلوع آفتاب سے تھوڑی دیر پہلے تک مزدلفہ میں قیام کرنا سنت ہے۔ اس لیے بلاوجہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ترک کر کے طلوع آفتاب سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ نہیں ہونا چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔