جواب:
نماز میں قرأت کے لیے ایک طویل آیتِ مبارکہ کا آدھا حصہ پڑھنے کے جواز پر علماء کا اختلاف ہے، بہتر اور افضل یہی ہے کہ قرآن مجید کی کم از کم تین چھوٹی آیات یا ایک طویل آیتِ مبارکہ جو تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو پڑھی جائے۔ فقہائے احناف کے مطابق ایک لمبی آیتِ مبارکہ دو رکعات میں آدھی آدھی پڑھنے سے نماز ہو جاتی ہے۔ علامہ محمد علی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے امام حلبی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
وَلَوْ قَرَأَ آيَةً طَوِيلَةً فِي الرَّكْعَتَيْنِ فَالْأَصَحُّ الصِّحَّةُ اتِّفَاقًا لِأَنَّهُ يَزِيدُ عَلَى ثَلَاثِ آيَاتٍ قِصَارٍ.
اگر دو رکعتوں میں طویل آیت پڑھی تو اصح قول بالاتفاق صحت کا ہے کیونکہ وہ تین چھوٹی آیات سے زیادہ ہوگی۔
حصفكي، الدر المختار، 1: 537، بيروت: دار الفكر
امام حصکفی رحمۃ اللہ کے نقل کردہ قول کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی فرماتے ہیں:
تَعْلِيلٌ لِلْمَذْهَبَيْنِ لِأَنَّ نِصْفَ الْآيَةِ الطَّوِيلَةِ إذَا كَانَ يَزِيدُ عَلَى ثَلَاثِ آيَاتٍ قِصَارٍ يَصِحُّ عَلَى قَوْلِهِمَا فَعَلَى قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ الْمُكْتَفِي بِالْآيَةِ أَوْلَى... وَعُلِمَ مِنْ تَعْلِيلِهِمْ أَنَّ كَوْنَ الْمَقْرُوءِ. فِي كُلِّ رَكْعَةٍ النِّصْفَ لَيْسَ بِشَرْطٍ بَلْ أَنْ يَكُونَ الْبَعْضُ يَبْلُغُ مَا يُعَدُّ بِقِرَاءَتِهِ قَارِئًا عُرْفًا.
یہ دونوں مذہبوں کی علت ہے کیونکہ طویل آیت کا نصف جب چھوٹی تین آیات سے زائد ہو تو صاحبین رحمۃ اللہ علیہما کے قول پر نماز صحیح ہوگی اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق‘ جس میں ایک آیت کافی ہے‘ تو بدرجہ اولیٰ صحیح ہوگی۔ علماء کی تعلیل سے معلوم ہوا کہ ہر رکعت میں نصف کا پڑھنا نہیں بلکہ بعض حصہ اتنا ہوکہ جس کے پڑھنے سے عرفاً قاری شمار ہو۔
علامہ شامی مزید فرماتے ہیں کہ:
وَيُفِيدُ قَوْلَهُمْ: لَوْ قَرَأَ آيَةً تَعْدِلُ أَقْصَرَ سُورَةٍ جَازَ، وَفِي بَعْضِ الْعِبَارَاتِ تَعْدِلُ ثَلَاثًا قِصَارًا أَيْ كَقَوْلِهِ تَعَالَى {ثُمَّ نَظَرَ. ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ. ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ} [المدثر: 21-23] وَقَدْرُهَا مِنْ حَيْثُ الْكَلِمَاتُ عَشْرٌ، وَمِنْ حَيْثُ الْحُرُوفُ ثَلَاثُونَ، فَلَوْ قَرَأَ {اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ} [البقرة: 255] يَبْلُغُ مِقْدَارَ هَذِهِ الْآيَاتِ الثَّلَاثِ، فَعَلَى مَا قُلْنَاهُ لَوْ اقْتَصَرَ عَلَى هَذَا الْقَدْرِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ كَفَى عَنْ الْوَاجِبِ، وَلَمْ أَرَ مَنْ تَعَرَّضَ لِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ.
اور فقہاء کرام کا قول اس کو مفید ہے کہ اگر ایک آیت پڑھی جو چھوٹی سورت کے برابر ہے تو جائز ہے اور بعض عبارات میں ہے کہ چھوٹی تین آیات کے برابر ہے تو جائز ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {ثُمَّ نَظَرَ. ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ. ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ} کلمات کی حیثیت سے اس تقریر دس ہے اور حروف کی حیثیت سے اس کی تقریر تیس ہے۔ اگر اس نے {اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ} پڑھا تو یہ ان تین آیات کی مقدار کو پہنچتا ہے جو ہم نے کہا ہے اس کی بنا پر اگر ہر رکعت میں اس مقدار پر اکتفا کرے تو واجب قرأت کی طرف سے کافی ہے اور میں نے کیس عالم کی تحریر نہیں دیکھی جس نے اس میں سے کسی چیز سے تعرض کیا ہو۔
ابن عابدين، رد المحتار، 1: 537، بيروت: دار الفكر
مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ اگر کسی بڑی آیتِ مبارکہ کا نصف تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو تو اس کی تلاوت سے سورہ فاتحہ کے ساتھ قرأت کا وجوب پورا ہو جائے گا اور نماز درست ہوگی۔ یعنی طویل آیت آدھی پڑھ کر رکوع کر سکتے ہیں۔
آپ کے سوال کے دوسرے حصے میں قضاء نماز کی ادائیگی کے متعلق پوچھا گیا ہے، بنیادی اصول ذہن نشین کر لیں کہ صاحبِ ترتیب شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے قضاء نماز پڑھے پھر وقتی نماز ادا کرے جیسا کہ فقہاء کرام فرماتے ہیں:
وَمَنْ فَاتَتْهُ صَلَاةٌ قَضَاهَا إذَا ذَكَرَهَا وَقَدَّمَهَا عَلَى فَرْضِ الْوَقْتِ وَالْأَصْلُ فِيهِ أَنَّ التَّرْتِيبَ بَيْنَ الْفَوَائِتِ وَفَرْضِ الْوَقْتِ عِنْدَنَا مُسْتَحَقٌّ وَعِنْدَ الشَّافِعِيِّ مُسْتَحَبٌّ، لِأَنَّ كُلَّ فَرْضٍ أَصْلٌ بِنَفْسِهِ فَلَا يَكُونُ شَرْطًا لِغَيْرِهِ وَلَنَا قَوْلُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: مَنْ نَامَ عَنْ صَلَاةٍ أَوْ نَسِيَهَا فَلَمْ يَذْكُرْهَا إلَّا وَهُوَ مَعَ الْإِمَامِ فَلْيُصَلِّ الَّتِي هُوَ فِيهَا ثُمَّ لِيُصَلِّ الَّتِي ذَكَرَهَا ثُمَّ لِيُعِدْ الَّتِي صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ. وَلَوْ خَافَ فَوْتَ الْوَقْتِ يُقَدِّمُ الْوَقْتِيَّةَ ثُمَّ يَقْضِيهَا لِأَنَّ التَّرْتِيبَ يَسْقُطُ بِضِيقِ الْوَقْتِ، وَكَذَا بِالنِّسْيَانِ وَكَثْرَةِ الْفَوَائِتِ كَيْ لَا يُؤَدِّيَ إلَى تَفْوِيتِ الْوَقْتِيَّةِ، وَلَوْ قَدَّمَ الْفَائِتَةَ جَازَ لِأَنَّ النَّهْيَ عَنْ تَقْدِيمِهَا لِمَعْنًى فِي غَيْرِهَا، بِخِلَافِ مَا إذَا كَانَ فِي الْوَقْتِ سَعَةٌ وَقَدَّمَ الْوَقْتِيَّةَ حَيْثُ لَا يَجُوزُ لِأَنَّهُ أَدَّاهَا قَبْلَ وَقْتِهَا الثَّابِتِ بِالْحَدِيثِ وَلَوْ فَاتَتْهُ صَلَوَاتٌ رَتَّبَهَا فِي الْقَضَاءِ كَمَا وَجَبَتْ فِي الْأَصْلِ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ شُغِلَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَقَضَاهُنَّ مُرَتِّبًا ثُمَّ قَالَ صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي. إلَّا أَنْ تَزِيدَ الْفَوَائِتُ عَلَى سِتِّ صَلَوَاتٍ؛ لِأَنَّ الْفَوَائِتَ قَدْ كَثُرَتْ فَيَسْقُطُ التَّرْتِيبُ فِيمَا بَيْنَ الْفَوَائِتِ نَفْسِهَا، كَمَا سَقَطَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْوَقْتِيَّةِ، وَحَدُّ الْكَثْرَةِ أَنْ تَصِيرَ الْفَوَائِتُ سِتًّا لِخُرُوجِ وَقْتِ الصَّلَاةِ السَّادِسَةِ ، وَهُوَ الْمُرَادُ بِالْمَذْكُورِ فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ وَهُوَ قَوْلُهُ : وَإِنْ فَاتَتْهُ أَكْثَرُ مِنْ صَلَاةِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ أَجْزَأَتْهُ الَّتِي بَدَأَ بِهَا؛ لِأَنَّهُ إذَا زَادَ عَلَى يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ تَصِيرُ سِتًّا وَعَنْ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ أَنَّهُ اعْتَبَرَ دُخُولَ وَقْتِ السَّادِسَةِ ، وَالْأَوَّلُ هُوَ الصَّحِيحُ لِأَنَّ الْكَثْرَةَ بِالدُّخُولِ فِي حَدِّ التَّكْرَارِ وَذَلِكَ فِي الْأَوَّلِ.
جس شخص کی نماز فوت ہو گئی تو اس کو جب یاد آئے قضا کرے اور اسے فرض وقتی پر مقدم کرے۔ اور ہمارے (یعنی احناف کے) نزدیک اصل میں قضاؤں اور فرض وقتی کے درمیان ترتیب رکھنا ضروری ہے۔ امام شافعی رحمہ اﷲ کے نزدیک ترتیب مستحب ہے۔ ان (امام شافعی) کی دلیل یہ ہے کہ ہر فرض بذات خود اصل ہے، وہ دوسرے کے لئے شرط نہ ہوگا۔ ہماری (احناف کی) دلیل آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ فرمان ہے کہ جو شخص نماز کے وقت سو گیا یا بھول گیا اور اُس کو یاد اُس وقت آیا جب وہ امام کے ساتھ دوسری نماز پڑھ رہا ہو، تو یہ پڑھ لے جس میں موجود ہے، پھر وہ پڑے جس کو یاد کیا، پھر اس کو دوبارہ جو امام کے ساتھ پڑھی ہے۔ اور اگر وقت نکل جانے کا خوف ہو تو وقتی نماز کو پہلے پڑھے، پھر فوت ہونے والی کو قضاء کرے۔ کیونکہ وقت کی تنگی، بھول جانے اور فوت شدہ (نمازوں) کی کثرت سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے، تاکہ اس کی وجہ سے وقتی نماز فوت نہ ہو جائے۔ اور اگر اس شخص نے تنگی وقت کے باوجود فوت شدہ کو پہلے پڑھ لیا تو جائز ہے کیونکہ فوت شدہ کو ایسی حالت تنگی میں پہلے پڑھنے کی جو ممانعت ہے اس کی وجہ اور ہے۔ بر خلاف اس کے جب کہ وقت میں وسعت ہو۔ اور اس نے وقتی نماز کو مقدم کر دیا تو یہ جائز نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس نے وقتی (نماز) کو اس کے وقت سے پہلے ادا کیا جو حدیث سے ثابت ہے۔ اور اگر کسی کی کئی نمازیں فوت ہو گئی ہوں تو قضاء کرتے وقت ان کو ترتیب وار قضاء کرے، جیسے اصل میں واجب ہوئیں۔ کیونکہ آقا علیہ السلام جنگ خندق کے دن چار نمازوں میں مصروف رہے تو آپ علیہ السلام نے اُن کو ترتیب وار قضاء کیا۔ پھر فرمایا: جیسے تم مجھے پڑھتا دیکھ رہے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو۔ ہاں اگر فوت شدہ نمازیں چھ سے زائد ہو جائیں تو پھر ترتیب ساقط ہو جائے گی۔ جیسے فوت شدہ اور وقتی نماز کی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ حد کثرت یہ ہے کہ چھ نمازیں قضاء ہو جائیں یعنی چھٹی کا وقت نکل جائے اور یہی جامع صغیر میں ہے۔ اگر اس سے دن رات کی نمازوں سے زیادہ فوت ہو گئیں تو جائز ہو جائے گی وہ نماز جس سے ابتداء کی تھی کیونکہ جب ایک دن رات پر زیادہ ہوئیں تو چھ ہو جائیں گی۔ اور امام محمد رحمہ اﷲ سے یہ بھی روایت ہے کہ چھٹی کا وقت شروع ہوتے ہی ترتیب ختم ہو جائے گی۔ قولِ اوّل ہی صحیح ہے۔ کیونکہ کثرت تو حد تکرار میں داخل ہونے سے ہوتی ہے اور یہ پہلے قول پر ہوگا۔
(مذکورہ بالا عبارت ہدایہ سے لی گئی ہے مگر باقی فقہاء کرام نے بھی یہی موقف اپنایا ہے)
اس لیے صاحبِ ترتیب کے لیے تو ضروری ہوگا کہ ظہر سے پہلے فجر کی قضاء کرے اور پھر نمازِ ظہر ادا کرے۔ اسی طرح صاحبِ ترتیب باقی نمازوں کی بھی ترتیب قائم رکھے۔ جو شخص صاحبِ ترتیب نہ ہو وہ ممنوعہ اوقات کے علاوہ جب چاہے فجر یا دوسری نمازوں کی قضاء کر سکتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔