جواب:
آپ کے دریافت کردہ مسئلے کا جواب دینے سے پہلے یہ سمجھنا لینا چاہیے کہ اس نوعیت کے مسائل کا فیصلہ کرنے کی بابت شریعت نے کیا اصول دیا ہے۔ شرعی قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی ایسا تنازعہ ہو جائے تو مدعی (دعویٰ کرنے والا) اپنے دعویٰ کے حق میں ثبوت پیش کرے گا اور مدعیٰ علیہ (جس کے خلاف دعویٰ کیا جائے) اگر لگنے والے الزامات سے انکاری ہے تو قسم دے گا اور اسی پر فیصلہ ہوگا۔ حضرت ابن ابی مُلَیکہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ:
کَتَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ قَضَی بِالْيَمِينِ عَلَی الْمُدَّعَی عَلَيْهِ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لکھا کہ نبی کریم نے مدعیٰ علیہ کی قسم پر فیصلہ فرمایا۔
ایک روایت میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے، ایک مقام حضرموت سے اور دوسرا کندہ سے۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! اس شخص (کندی) نے میرے باپ کی طرف سے ملی ہوئی زمین کو مجھ سے چھین لیا، کندی نے کہا وہ میری زمین ہے اور میرے تصرف میں ہے میں اس میں زراعت کرتا ہوں، اس شخص کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَلَکَ يَمِينُهُ قَالَ: يَا رَسُولَ ﷲِ إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَی مَا حَلَفَ عَلَيْهِ. وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْئٍ فَقَالَ لَيْسَ لَکَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ. فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ، لَمَّا أَدْبَرَ أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَی مَالِهِ لِيَاْکُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ ﷲَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ.
پھر اس (کندی) شخص کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! یہ جھوٹا ہے، جھوٹ پر قسم اٹھا لے گا، یہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔ جب کندی قسم کھانے کے لیے مڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس شخص نے اس کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو اللہ سے جب ملاقات کرے گا اور وہ اس سے ناراض ہو گا۔
مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوا کہ مدعی ثبوت پیش کرے، اگر ثبوت نہ ہو تو مدعیٰ علیہ قسم یا حلف دے گا۔ مدعیٰ علیہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتا ہے یعنی حلف دے سکتا ہے۔
صورت مسئلہ کے مطابق جب مدعی کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ نہیں تھا کہ بھینس فائرنگ سے ہلاک کوئی ہے تو پھر مدعیٰ علیہ کے حلف پر ہی فیصلہ ہونا تھا۔ اگر واقعی بھینس مدعیٰ علیہ فریق کی فائرنگ سے ہلاک نہیں ہوئی تھی تو سائل کا حلف دینا درست تھا اور شرعاً جائز بھی تھا، اس کے برعکس اگر بھینس فائرنگ سے ہی ہلاک ہوئی تھی اور سائل نے محض مدعیٰ علیہ فریق کو بچانے کے لیے جھوٹا حلف دیا ہے تو اس نے ناجائز کام کیا، قرآنِ کریم کا جھوٹا حلف دینا کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ بقول سائل کے اس نے میں مکمل تحقیق کی تھی اور اسے یقین تھا کہ بھینس فائرنگ سے ہلاک نہیں ہوئی تھی اور اس نے چھان بین کے بعد ہی حلف دیا تھا تو اسے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے کوئی ناجائز کام نہیں کیا، سچی گواہی یا سچا حلف دینا بالکل جائز ہے۔
وسوسوں سے بچنے کے لیے نماز پنجگانہ کی پابندی کریں، تعّوذ (اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) اور درود و سلام کی کثرت کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔