جواب:
لفظ اعتکاف کا مادہ عکف ہے جس کے معنیٰ خود کو روک لینے، بند کر لینا یا کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اس سے نہ ہٹے وغیرہ۔ اہلِ لغت نے اعتکاف کا شرعی مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
قِيْلَ لِمَنْ لَازَمَ الْمَسْجِدَ وَأَقَامَ عَلَى العِبَادَةِ فِيهِ: عَاكِفَ وَ مُعْتَكِفٌ.
جو مسجد میں ڈیرا لگا لے اور عبادت میں مصروف ہو جائے‘ اسے عاکف یا معتکف کہا گیا ہے۔
ابن اثیر، النهایه فی غریب الاثر، 3: 284، بیروت، المکتبة العلمیة
ابنِ منظور، لسان العرب، 9: 255، بیروت، دار صادر
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِO
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو۔
البقرة، 2: 125
اور سورہ بقرہ میں ہی دوسرے مقام پر فرمایا:
وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ.
اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو۔
البقره، 2: 187
درج بالا آیت میں مردوں کے لیے مسجد کو اعتکاف گاہ قرار دیتے ہوئے اعتکاف کے آداب ملحوظ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شریعتِ مطاہرہ نے مسنون اعتکاف کے لیے جامع مسجد کو بنیادی شرط قرار دیا ہے‘ الاّ یہ کہ کوئی شرعی عذر درپیش آ جائے۔ امام بیہقی نے مسنون اعتکاف کے آداب ان الفاظ میں بیان کیے ہیں:
أَنْ لاَ يَخْرُجَ إِلاَّ لِلْحَاجَةِ الَّتِي لاَ بُدَّ مِنْهَا. وَلاَ يَعُودُ مَرِيضًا، وَلاَ يَمَسُّ امْرَأَةً، وَلاَ يُبَاشِرُهَا، وَلاَ اعْتِكافَ إِلاَّ فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ. وَالسُّنَّةُ فِيمَنِ اعْتَكَفَ أَنْ يَصُومَ.
معتکف کسی ایسی شدید ضرورت کہ جس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو‘ باہر نہ نکلے۔ نہ تیمارداری کرے، نہ بیوی سے ہمبستری کرے اور نہ مباشرت کرے۔ جامع مسجد کے سوا اعتکاف نہیں ہے اور سنت اعتکاف کے لیے روزہ رکھنا شرط ہے۔
بیهقی، السنن الکبریٰ، 4: 315، رقم: 8354، مکة المکرمة، المکتبة دارلباز
اور حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ عیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا:
وَإِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ لَيُدْخِلُ عَلَيَّ رَأْسَهُ وَهُوَ فِي المَسْجِدِ، فَأُرَجِّلُهُ، وَكَانَ لاَ يَدْخُلُ البَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةٍ إِذَا كَانَ مُعْتَكِفًا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں ہوتے ہوئے سر مبارک میری طرف کر دیتے تو میں اس میں کنگھی کر دیتی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر ضرورت کے گھر میں تشریف نہ لاتے جب کہ اعتکاف میں ہوتے۔
بخاری، الصحیح، 2: 714، رقم: 1925، بیروت، دار ابن کثیر الیمامة
ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردوں کا اعتکاف مسجد میں ہی مسنون ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں اعتکاف فرماتے اور آپ نے مسجد میں ہی اعتکاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ مردوں کے لیے مسنون اعتکاف ایسی مساجد میں کرنے کا حکم ہے جہاں امام و مؤذن مقرر ہوں، البتہ خواتین کے لیے اپنے گھر میں جگہ مقرر کرکے اعتکاف کرنے کا حکم ہے۔ کرونا وائرس کی موجودہ وباء کے پیش نظر حکومت نے مساجد میں اعتکاف کرنے سے روک دیا ہے اس لیے جو لوگ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مسنون اعتکاف کا ارادہ رکھتے تھے وہ دس دنوں کےلئے گھروں میں ہی خلوت نشینی اختیار کریں۔ اپنی عبادات، ذکر و اذکار، اوراد و وظائف اور تلاوتِ قرآن کو پہلے سے زیادہ کر لیں، طاق راتوں کی برکات سمیٹیں اور دن بھر ترجمہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کریں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مساعی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔