السلام علیکم مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے ’اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے چند لوگوں کے سوا سارے (اس عہد سے) رُوگرداں ہو گئے اور تم (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہو‘۔ نماز اور زکوۃٰ تو ارکان اسلام قرار دے دیئے گئے، جن کا ذکر بعد میں آیا ہے، مگر والدین، اقرباء، یتیموں، محتاجوں سے اچھا سلوک کرنا، لوگوں سے اچھی بات کہنا ارکان اسلام کا حصہ کیوں نہیں؟ عدل ارکان اسلام میں کیوں شامل نہیں؟ قرآن مجید میں ہے: یٰـدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِ [(ہم نے کہا:) اے داؤدؑ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔] کیا یہ حکم صرف حضرت داؤد علیہ السلام کیلئے تھا؟ میرا سوال یہ ہے کہ ارکان اسلام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا علماء کرام کی طرف سے؟
جواب:
حدیثِ جبریل میں جن پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد قرار دی گیا ہے اور دیگر متعدد روایات میں بھی ان کی اہمیت بیان کی گئی ہے، اصطلاحاً انہی کو ارکان اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: یہ گواہی دیناکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ارکانِ اسلام کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا ہے، اس لیے ارکان اسلام کو علماء کی تخلیق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن چیزوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا ہے ان میں کمی و بیشی کا کسی کو اختیار نہیں۔
یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ ارکان اسلام کا مقصد انسانی اخلاق کو سنورنا اور سماجی اخلاقیات کو فروغ دینا ہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ.
وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
الجمعه، 62: 2
اس آیت مبارکہ میں بعثت نبوی کے چار فرائض بیان کئے گئے ہیں:
آقا علیہ السلام نے اپنی بعثت کے لئے ارشاد فرمایا:
انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق.
(موطا امام مالک)
یعنی فرمایا میں تو مبعوث ہی اس لیے ہوا ہوں کہ تمہارے اخلاق سنوار دوں۔ پورا دین اخلاق سنوارنے کا ہی نام ہے۔ حسن خلق جس کو نصیب ہو گیا اُس نے پورے دین کی روح کو پا لیا۔ دین کی روح حسن خلق ہی ہے۔ اگر اس کو چھوڑ دیتے ہیں تو پھر کسی عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ والدین، اعزاء و اقرباء، یتیموں، مسکینوں اور معاشرے کے پسماندہ طبقات سے حسن سلوک کرنے، عدل و انصاف کی سماجی اور مذہبی اہمیت ہے، ان کے متعلق ہر انسان خدا تعالیٰ کی عدالت میں جوابدہ ہے۔ ان کی اہمیت بیان کی جائے گی، ان کی اہمیت بارے سماج میں آگاہی دی جائے گی مگر محض ان کی اہمیت کے پیشِ نظر انہیں ارکانِ اسلام میں شامل نہیں کیا جائے گا کیونکہ ارکان اسلام کا تعین نصِ قطعی سے ہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کوئی اختیار نہیں کہ وہ نصوص قطعیہ میں متعین امور میں کمی و بیشی کرے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔