کمسن بچوں کی وفات پر والدین کے لیے کیا اجر ہے؟


سوال نمبر:5602
اگر کسی مسلمان کا بچہ پیدائشی مردہ پیدا ہو تو میاں بیوی کیلئے اسلام کے کیا احکامات ہے تاکہ وہ ان پر عمل کر کے اللہ پاک کی نافرمانی کی مرتکب نہ ہو اور اور اپنے آپ کو دلاسہ دے سکیں؟

  • سائل: امجد علیمقام: سوات
  • تاریخ اشاعت: 08 اکتوبر 2019ء

زمرہ: محاسنِ اخلاق

جواب:

یہ دنیا انسان کے لیے امتحان گاہ ہے جس میں آنے والے خوشی یا غم کے لمحات دراصل انسان کی آزمائش کے لیے ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے قدرت انسان کو پرکھتی ہے کہ وہ آزمائش کی ان گھڑیوں میں اخلاقِ حسنہ پر قائم رہتا ہے یا رذائل میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دنیاوی زندگی میں آنے والی ان آزمائشوں کے دوران بندہء مومن سے تقاضا کیا گیا ہے کہ خوشی کے لمحوں میں شاکر بن کر الٰہ العالمین کے سامنے سجدہ ریز ہو اور غم کی گھڑیوں میں صابر بن کر اس کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر لے۔ قرآنِ مجید میں صبر کے مواقع بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ.

اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔

البقرہ، 2: 155

گویا مال، جان اور ثمرات میں کمی ہونا صدمے کے سب سے اہم مواقع ہیں۔ کمی ہونے کے دو پہلو ہیں: ایک کم دینا اور دوسرا دیے ہوئے میں سے چھین لینا۔ مثلاً مال میں کمی سے مراد مفلس رکھنا بھی ہے اور تونگری میں چوری ڈاکے یا کسی حادثے سے دو چار کر کے دیے ہوئے مال کو چھین لینا بھی ہے۔ اسی طرح جان میں کمی سے مراد کسی عزیز‘ جیسے ماں باپ، بیوی بچوں یا بھائی بہنوں کی وفات بھی ہے اور اولاد وغیرہ سے محروم رکھنا بھی ہے۔ اگر انسان ان مصائب میں صبر کا دامن تھامے رکھتا ہے تو خدا تعالیٰ کی بارگاہ سے خوشخبری اور جزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔

یہ قدرتی امر ہے کہ اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑے غم اور صدمے کا باعث ہے، اسی لیے اولاد کی موت کو اللہ تعالی کی رضا سمجھ کر صبر کرنے پر والدین کے لیے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَمُوْتُ لهٗ ثَلٰثَةٌ مِنْ وُلْدٍ یَبْلُغُوا الْحِنْثَ اِلَّا تَلْقَوْهُ مِنْ أبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِیَةِ مِنْ أیِّها شَآءَ دَخَلَ، فقالوا: یا رسول الله! او اثنان، قال: أوَ اِثْنَانِ، قالوا: او واحد، قال: أوْ وَاحِدٌ، ثم قال: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهٖ اِنَّ السِّقْطَ لَیَجُرُّ اُمَّهٗ بِسُرَرِهٖ اِلیَ الْجَنَّةِ اِذَا اِحْتَسَبَتْهُ.

جس مسلمان کے تین بچے نابالغ مریں گے وہ جنت کے آٹھوں دروازوں سے اسکا استقبال کریں گے کہ جس سے چاہے داخل ہو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یا دو؟ فرمایا: دو (پر بھی اجر ہے)، عرض کیا گیا: یا ایک؟، فرمایا: یا ایک (پر بھی اجر ہے)۔ پھر فرمایا: قسم اسکی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو بچہ اپنی والدہ کے پیٹ میں (روح پھونکے جانے سے پہلے ) ہی ساقط (ضائع) ہو گیا اگر ثواب الہی کی امید میں اسکی ماں صبر کرے تو وہ اپنی نال (ناف سے ملا ہوئے حصے) سے اپنی ماں کو جنت میں کھینچ لے جائے گا۔

احمد بن حنبل، المسند، 2: 510

اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِذَا مَاتَ وَ لَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ لِمَلآئِکَتِهٖ: قَبِضْتُمْ وَ لَدَعَبْدِی فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَیَقُوْلُ: قَبِضْتُمْ ثَمْرَةَ فُؤَادِهٖ فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَیَقُوْلُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِی؟ فَیَقُوْلُوْنَ: حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ، فَیَقُوْلُ: اُبْنُوا لِعَبْدِی بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ سَمَّوْهُ بَیْتَ الْحَمْدِ.

جب مسلمان کا بچہ مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کرلی۔ عرض کرتے ہیں: ہاں۔ فرمایا: تم نے اسکے دل کا پھل توڑ لیا؟ عرض کرتے ہیں: ہاں ، فرماتا ہے: پھر میرے بندے نے کیا کہا؟ عرض کرتے ہیں: تیرا شکر کیا اور ’انا للہ و انا الیہ راجعون‘ پڑھا۔ فرماتا ہے میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اسکا نام حمد کا مکان رکھو۔

احمد بن حنبل، المسند، 4: 415

مذکورہ آیات و روایات سے واضح ہوتا ہے کہ اولاد کی وفات جیسے اندوہناک اور غمناک صدمے پر صبر کرنے کی صورت میں انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے، کمسنی میں فوت ہونے والے بچے اپنے والدین کے لیے جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلے کا باعث بنیں گے۔ اس لیے کمسن بچوں کی وفات پر والدین کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، بچوں کی یاد میں آنسو آجانے میں کوئی برائی نہیں البتہ شکوہ و شکایت کے انداز میں کوئی جملہ نہیں بولنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے صبر کی دعا کرنی چاہیے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری