جواب:
: روزہ کے اثرات ہر شخص پر روحانی اور جسمانی طور پر یکساں نہیں ہوتے۔ روزے کی فضیلت اور برکت اپنی جگہ مسلّم لیکن اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر شخص کے حصے میں برابر آجائیں ممکن نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای :
’’کتنے روزہ دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کو نمازوں سے رت جگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوت۔‘‘
ابن خزيمة، الصحيح، 3 : 242، رقم : 1997
جس نے اﷲ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر چلتے ہوئے اپنی بندگی کو وفاداری بشرط استواری کے سات نبھایا اور خود احتسابی سے غافل ہوئے بغیر روزہ رکھے ایسے شخص کے لئے خوشخبری ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای :
’’جس شخص نے حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے داتے ہیں اور جو رمضان میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرتا ہے تو اس کے (بھی) سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جو لیلۃ القدر میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 : 709، رقم : 1910
اسی طرح جسماني طور پر بھي روزہ کے اثرات ہر شخص پر مختلف ہوتے ہيں مثلاً يک شخص ائيرکنڈيشنڈ آفس ميں کام کرتا ہے تو دوسرا شخص شديد گرمي اور چلچلاتي دھوپ ميں محنت مزدوري کرتا ہے۔ دونوں کے کام کي نوعيت کے اعتبار سے انساني جسم ميں پاني، نمکيات وغيرہ کي کمي اور نقاہت کي کيفيت مختلف ہو گي۔ اسي اعتبار سے روزہ دار کو ان کے صبر و برداشت اور رضائے الٰہي کي کيفيات کے مطابق انہيں اجر و ثواب سے نوازا جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔