یوم عاشورہ کے روزے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال نمبر:4712

یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا کیسا ہے اور کیا دس محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا بھی ضروری ہے؟

  • سائل: اکرام اللہمقام: میرپور، آزاد جموں و کشمیر
  • تاریخ اشاعت: 16 فروری 2018ء

زمرہ: روزہ

جواب:

یوم عاشورہ کا روزہ رکھنا افضل ترین عمل ہے کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ویسے تو یوم عاشورہ کے روزے کے حوالے سے بہت سی روایات ملتی ہیں، مگر اختصار کی خاطر چند احادیث درج ذیل ہیں:

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اﷲِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ صَلَاةُ اللَّیْلِ.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔

مسلم، الصحیح، 2: 821، رقم: 1163، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میںیوم عاشورہ کا روزہ رکھنے کی وجہ بیان کی گئی ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم الْمَدِینَةَ فَرَأَی الْیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا یَوْمٌ نَجَّی اﷲُ بَنِي إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ فَصَامَهُ مُوسَی قَالَ فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَی مِنْکُمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو دیکھا کہ عاشورے کا روزہ رکھتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ عرض کی کہ یہ اچھا دن ہے، اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کا روزہ رکھا۔ فرمایا کہ تمہاری نسبت موسیٰ علیہ السلام سے میرا تعلق زیادہ ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا روزہ رکھا اور اس کے روزے کا حکم فرمایا۔

بخاري، الصحیح، 2: 704، رقم: 1900

اور دس محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے پر دلالت یہود کی مخالفت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اگلے سال نویں محرم کو روزہ رکھنے کا پختہ ارادہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

حِینَ صَامَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم یَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِیَامِهِ قَالُوا یَا رَسُولَ ﷲِ إِنَّهُ یَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَی فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اﷲُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّی تُوُفِّيَ رَسُولُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم.

جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس روزے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا اس دن کی تو یہود اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اگلا سال آئے گا تو ہم انشاء اللہ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابھی سال آنے نہ پایا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا گئے۔

مسلم، الصحیح، 2: 797، رقم: 1134

دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کے بارے میں حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

صُومُوا یَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا الْیَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ یَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ یَوْمًا.

عاشورے کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ روزہ رکھو۔

ابن خزیمة، الصحیح، 3: 290، رقم: 2095، بیروت: المکتب الإسلامي

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ عاشورے کے روزے رکھنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہود کی مخالفت میں نویں اور دسویں محرم کے روزے ملا کر رکھنا بھی سنت ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری