جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا.
مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔
النساء، 4: 7
درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ترکہ میں تمام اولاد کو شامل کیا ہے اور مرد و زن کی بنیاد پر اس میں کوئی تفریق نہیں کی۔ تقسیمِ ترکہ کا اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
النساء، 4: 11
اس لیے مسئلہ ہٰذا میں اگر والدین کے ترکہ سے ان کی بیٹی نے حصے کا مطالبہ نہیں کیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا حصہ تھا نہیں یا مطالبہ نہ کرنے پر اس کا حصہ ختم ہوگیا۔ اگر بیٹی کی زندگی میں اسے والدین کے ترکہ سے حصہ نہیں دیا گیا تو اب اس کی اولاد کو ملے گا اور اُس کی اولاد مطالبہ کا حق رکھتی ہے۔ اسی حق کی بنیاد پر مرحومہ کا بیٹا اپنی والدہ کے حصے کا مطالبہ کر رہا ہے، اسے یہ حق ملنا چاہیے اور اگر وہ بذریعہ عدالت اپنی والدہ کا حصہ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے لیے جائز ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔