مورث کی وفات کے فوری بعد وراثت تقسیم نہیں ہوئی اب تقسیم کا کیا طریقہ کار ہے؟


سوال نمبر:5922

السلام علیکم مفتی صاحب! ایک شخص نے 2013ء میں 3 کروڑ مالیت کا کاروبار اپنے بیٹے کے حوالے کر دیا اور بیٹا تاحال اس کاروبار کو چلا رہا ہے جبکہ 2018 ء میں یہ شخص وفات پا گیا اور اُس وقت کاروبار کی مالیت 5 کروڑ تھی۔ کاروبار کے علاوہ اس شخص کا ایک مکان بھی ہے لیکن ابھی تک کاروبار اور مکان کی تقسیم ورثاء میں نہیں کی گئی۔ اس حوالے سے قابلِ دریافت امور یہ ہیں:

1. کاروبار کی تقسیم 2013ء کی مالیت کے مطابق ہو گی یا 2018ء کے؟

2. گھر کی تقسیم کس قیمت کے مطابق ہو گی؟

3. ترکہ کی تقسیم کیسے ہو گی؟

  • سائل: آیان ثناءاللہمقام: کوٹ مومن
  • تاریخ اشاعت: 26 نومبر 2020ء

زمرہ: تقسیمِ وراثت

جواب:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًاo

مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔

النساء، 4: 7

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے چھوڑے ہوئے مال یعنی ترکہ میں مردوں اور عورتوں دونوں طرح کے ورثاء کا حصہ ہوتا ہے۔ اور ترکہ وہ مال ہوتا ہے جو کوئی شخص مرتے دم اپنی ملکیت میں چھوڑ جائے۔ جیسا کہ علامہ شامی فرماتے ہیں:

التَّرِكَة فِي الِاصْطِلَاح: مَا تَرَكَهُ الْمَيِّتُ مِنْ الْأَمْوَالِ صَافِيًا عَنْ تَعَلُّقِ حَقِّ الْغَيْرِ بِعَيْنٍ مِنْ الْأَمْوَالِ.

ترکہ اصطلاح میں وہ تمام چیزیں ہیں جو مرتے وقت میت چھوڑ جائے، اُن کے ساتھ غیر کا حق متعلق نہ ہو۔

ابن عابدين، ردالمحتار، 6: 759، بيروت: دار الفكر

لہٰذا میت کی تجہیزوتکفین ، قرض کی ادائیگی اور ایک تہائی سے وصیت پوری کرنے کے بعد جو مال باقی بچ جائے اُسے ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بقول آپ کے مرحوم کے وقتِ وفات ورثاء میں ایک بیوہ ، ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل تھے۔ تمام ورثاء کے حصوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

مرحوم کے کل قابل تقسیم ترکہ میں سے اس کی بیوہ کو آٹھواں (1/8) حصہ ملے گا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔

النساء، 4: 12

بیوہ کو حصہ دے کر باقی مال کے کل چھ (6) حصے بنا کر دو حصے بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دیا جائے گا۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ.

اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔

النساء، 4: 11

مرحوم کے ترکہ کی تقسیم موجودہ مقدار کے مطابق ہو گی کیونکہ بیٹا 2013 ء سے تاحال کاروبار کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلوں ضروریات بھی اسی مال سے پوری کر رہا ہے۔ یہ والد کا مال اس کے پاس بطورِ نگران ہے، لہٰذا یہ مال ورثاء کو بشمول منافع دیا جائے گا۔ شرح مجلہ میں ہے:

الْأَمْوَالُ الْمُشْتَرَكَةِ فِي شَرِكَةِ الْمِلْكِ تَقْسِيمُ حَاصِلَاتِهَا بَيْنَ أَصْحَابِهِمْ عَلَى قَدْرِ حِصَصِهِمْ.

جو اموال شرکتِ ملک کے ساتھ مشترک ہوں اُن کے حاصلات (یعنی منافع) تمام مالکوں میں اُن کے حصص کے بقدر تقسیم ہوں گے۔

جمعية المجلة، مجلة الأحكام العدلية: 206، كارخانه تجار كتب

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:

  1. کاروبار کی تقسیم چونکہ 2020 ء میں ہو رہی ہے اس لیے مارکیٹ ریٹ کے مطابق موجودہ مالیت یعنی2020 ء کی قیمت کو مدّ نظر رکھ کر ورثاء میں مال کی تقسیم کی جائے گی۔2013 ء یا 2018ء کے لحاظ سے کاروبار کی تقسیم نہیں کی جائے گی کیونکہ جو بھی کمی بیشی ہوئی ہے وہ تمام ورثاء کا حق ہے۔
  2. گھر کی تقسیم بھی 2020 ء کی مالیت کے مطابق ہو گی۔
  3. تمام مالیت کو ملا کر کل قابلِ تقسیم ترکہ سے بیوہ کو آٹھواں (1/8) حصہ دے کر باقی مال کے برابر چھ (6) حصے بنا کر بیٹے کو دو (2) حصے اور ہر بیٹی کو ایک (1) حصہ دیا جائے گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری