جواب:
قیاس کا لغوی معنی ہے اندازہ کرنا، کسی شے کو اِس کی مثل کی طرف لوٹانا۔ جب کسی ایک شے کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کتاب و سنت میں موجود کسی امرِ شرعی کے ساتھ کرکے کسی نتیجہ پر پہنچانے کا عمل قیاس کہلاتا ہے۔ فقہاء نے قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
الْحَاقُ أمْرٍ غَیْرِ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِه الشَّرْعِیِّ بِأمْرٍ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِه لِاِشْتِرَاکِهِمَا فِیْ عِلَّةِ الْحُکْمِ․
حکم کی علت میں اشتراک کے سبب اُس معاملہ کو جس کے شرعی حکم کے بارے میں نص وارد نہیں ہوئی، ایسے معاملہ کے ساتھ ملانا جس کے حکم کی بابت نص وارد ہوئی ہے (قیاس کہلاتا ہے)۔
ابن قدامه، روضة الناظر و جنة المناظر، 2: 227
گویا کسی علت یا سبب کو بنیاد بنا کر کسی سابقہ حکم کی روشنی میں نئے مسائل کا حل نکالنا قیاس ہے۔ قرآنِ مجید میں قیاس اور فکر و شعور کی بنیاد پر سوچنے سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے، یہی قیاس کو فقہی مآخذ بنانے کی بنیاد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ. بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ.
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مَردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔ (انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔
النَّحْل، 16: 43-44
اور ایک مقام پر فرمایا:
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاً.
اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کی طرف لوٹادیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کانتیجہ اخذ کرسکتے ہیں اس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے، اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔
النساء، 4: 83
اسی طرح کی دیگر بہت سی آیات ہیں جن میں فکر و شعور کی بنیاد پر اشیاء کے بارے میں قیاس کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ قیاس کی دلیل رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے عمل سے بھی ملتی ہے، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا گورنر بناکر بھیج رہے تھے تو آپ نے پوچھا: جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا: کتاب اللہ کے احکام کے مطابق۔ پھر سوال کیا: اگر کتاب اللہ میں صراحت کے ساتھ اس کا حکم ذکر نہ ملا تو پھر کیسے فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کرو ں گا۔ پھر سوال کیا کہ اگر سنت میں بھی صراحت کے ساتھ اس کا تذکرہ نہ ملا تو پھر کیسے فیصلہ کروگے؟ انہوں نے جواب دیا:
اَجْتَہِدُ رَأْیِیْ. قَالَ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ.
ایسی حالت میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے فیصلہ کروں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے پیغمبر کے پیغامبر کو اس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔
الترمذی، السنن، 3: 616
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہما سے فرمایا:
أقْضِ بالکتابِ والسُنَّةِ، إذا وجدتَهما، فَإِذَا لم تجد الحکم فيهما، اجتهد رأيکَ.
جب تم قرآن و سنت میں کوئی حکم پاؤ تو اس کے مطابق فیصلہ کرو، لیکن اگر تم ان میں حکم نہ پا سکو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو۔
آمدي، الاحکام، 4: 43
جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تو ان سے پوچھا: اے معاذ! تم مسائل و مقدمات میں کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا: میں ﷲ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: اگر تم ﷲ کی کتاب میں نہ پا سکے تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں سنت رسول سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم کتاب و سنت دونوں میں حل نہ پاؤ تو؟ انہوں نے عرض کیا:
أجْتَهِدُ بِرَأيِی وَلَا آلُوْ.
میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔
یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپکا اور فرمایا:
اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ ﷲ لِمَا يُرْضِی رَسُوْلَ ﷲ.
ﷲ کا شکر ہے جس نے رسول ﷲ کے بھیجے ہوئے نمائندہ کو اس بات کی توفیق بخشی جو ﷲ کے رسول کو خوش کرے۔
أبوداؤد، السنن، کتاب الأقضية، باب إجتهاد الرأي فی القضاء 3: 295، رقم: 3592
درج بالا آیات و احادیث واضح کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسائل و معاملات میں قیاس و اجتہاد کو پسندیدگی نگاہ سے دیکھا اور آپ کی اسی پسندیدگی نے اِسے بیناد فراہم کی۔ اجتہاد و قیاس فقہ اسلامی کا ناگزیر حصہ شمار ہوتا ہے اور آئمہ و فقہاء نے نئے پیش آنے والے مسائل کا حل اور ضروریات کو قیاس کو اجتہاد کے ذریعے پورا کیا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔