کیا فوتگی والے گھر میں کھانا پکانا منع ہے؟


سوال نمبر:5275
السلام علیکم مفتی صاحب! کیا فوتگی والے گھر میں تین دن تک چولہا جلانا حرام ہے؟ یہ روایت کہاں ہے اور اس کی سند کیا ہے؟ اس دور میں اس حدیث کی تعبیر کیا ہوگی؟ فوتگی والے گھر تو آج کل کھانا بنتا بھی نہیں ٹینٹ سروس سے آجاتا ہے۔ ایسے میں‌ اس حدیث پر عمل ہوگا؟ وضاحت فرمائیں۔

  • سائل: مدثر مرتضیمقام: سوات
  • تاریخ اشاعت: 13 مارچ 2019ء

زمرہ: تعزیتِ میت

جواب:

جس گھر میں موت واقع ہوتی ہے اس گھر کے لوگ غمزدہ و رنجیدہ ہوتے ہیں‘ ایسے وقت میں ان کے لیے کھانا پکانا طبعی طور پر ناگوار ہوتا ہے کیونکہ جب کسی پیارے کی جدائی کا غم و اندوہ دل و دماغ پر طاری ہو تو کھانا بنانا اور کھانا بذات خود بوجھ لگتا ہے۔ پھر میت کی تجہیز و تکفین کے مسائل، تعزیت کے لیے آنے والے عزیز و اقارب سے میل ملاقات جیسے امور بھی درپیش ہوتے ہیں۔ ان حالات میں اسلام نے میت کے لواحقین کی دلجوئی کا حکم دیا ہے۔ اس لیے مستحب یہ ہے کہ ایسی حالت میں پڑوسی یا رشتےدار میت کے لواحقین اور ان کے مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر لوگوں کو ہدایت دی تھی کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے لئے کھانا بنایا جائے۔ (سنن الترمذی، ابواب الجنائز، حدیث نمبر: 998)

اسی لیے فقہاء کے نزدیک اس کا حکم یہ ہے کہ:

ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام یشبعهم یومهم ولیلتهم.

اہلِ میت کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو میت کے لوحقین کے لیے ایک دن و رات کا کھانا بنانا مستحب ہے۔

(ردالمحتار، 3: 148)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوتگی کی صورت میں اہلِ میت کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کا اخلاقی فریضہ ہے کہ ان کے لیے کھانے کا اہتمام کریں، خود اہلِ میت کے لیے کھانا پکانے کی ممانعت نہیں۔ ایسی کوئی روایت ہمارے علم میں نہیں جس میں اہلِ میت کو کھانا بنانے یا فوتگی والے گھر میں تین دن تک چولہا نہ جلانے کا حکم دیا گیا ہو۔ اگر اہلِ میت کے پڑوسی یا رشتہ دار ان کے لیے کھانا نہیں بناتے ہیں تو میت والے گھر میں چولہا بھی جلایا جاسکتا ہے اور کھانا بھی بنایا جاسکتا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری