جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَO
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
الْحُجُرَات، 49: 6
امت مسلمہ کا طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے ردج بالا حکمِ الٰہی پر عمل کرتے ہوئے خاص طور پر اپنے صدری (سینہ با سینہ منتقل ہونے والے) علوم کی اشاعت و تبلیغ میں انتہائی حزم و احتیاط سے کام لیا۔ ہر دور اور ہر طبقہ میں ایسے رجالِ کار پیدا ہوئے جنہوں نے مختلف شعبۂ ہائے علم میں کھرے و کھوٹے اور دخیل و اصیل کو ممتاز کرکے اس کے مابین فرق کو عامۃ الناس پر آشکارا کیا ہے۔ اسلامی علوم میں کھرے اور کھوٹے کی پہچان کے لیے باقاعدہ ایک فن وجود میں آیا جسے ’فنِ اسماء و رجال‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس فن کے ماہرین نے لاکھوں راویوں کی زندگیوں کو کھنگالا، ان کے حالات، پیدائش و وفات، اساتذہ و تلامذہ کی تفاصیل مرتب کیں اور ان تفاصیل کی بنا پر ان کا اور ان کی روایات کا مقام متعین کیا۔ کسی بھی روایت کے دو حصے ہوتے ہیں: ایک سند اور دوسرا متن‘ علمائے امت نے سند اور متن دونوں کی قبولیت کے لیے شرئط متفقہ طور پر وضع کیں اور انہی شرائط پر تمام روایات کو جانچا۔ یہ شرائط ہی دراصل وہ بنیادی اصول تھے جن کو مدِ نظر رکھ کر جرح و تعدیل کی گئی۔ گویا جرح و تعدیل کے اصول وہ چھاننی تھی جس سے گرز کر روایات اور راویوں کا مقام متعین ہوا۔ جرح و تعدیل کی کتب کے مراتبین نے ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر راویوں کو قبول و رد نہیں کیا بلکہ ان کے حالات و واقعات جاننے کے بعد وضع کردہ اصولوں پر انہیں پرکھا اور پھر اپنی رائے دی۔ اس لیے کتبِ جرح و تعدیل کو معتبر ان کے مراتبین کی وجہ سے نہیں بلکہ ان صولوں کی وجہ سے مانا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی روایت کی قبولیت کے لیے راوی کا عادل اور ضابط ہونا لازمی شرط ہے۔ عدالت سے مراد راوی کا مسلمان، عاقل، بالغ ہونا اور فسق و فجور اور انسانت کش عادتوں سے سلامت ہونا ہے جبکہ ضبط کی شرط کے تحت جانچا جاتا ہے کہ راوی ثقات کی مخالفت نہ کرتا ہو‘ برے حافظے والا نہ ہو، روایات کے تحمل و ادا میں غلطیاں نہ کرتا ہو، غفلت نہ برتتا ہو اور وہم کرنے والا نہ ہو۔ کتبِ جرح و تعدیل کے مراتبین نے راویوں کے حالات کا دقیق مطالعہ کیا، ان کے اساتذہ و تلامذہ کی تفاصیل جانیں، ان کے ہمعصر علماء کے تبصرے پڑھے اور پھر ان تمام معلومات کو درج بالا اصولوں پر پرکھا اور جو نتیجہ آیا اسے اپنی کتب میں بیان کر دیا۔ یہ ان حضرات کا معمولی کارنامہ نہیں بلکہ یہ ایسا کام ہے جس کی نظیر کسی قوم میں نہیں ملتی۔
بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ کتب جرح و تعدیل کا اعتبار ان کے مرتب کرنے والوں کی وجہ سے نہیں کیا جاتا بلکہ ان اصولوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جو جرح و تعدیل کی وضع کیے گئے اور ان اصولوں کو قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔ اگر کوئی جرح ان اصولوں سے ہٹ کر ذاتی تعصب کی بناء پر کی گئی ہے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔